میرا سوال یہ ہےکہ پاکستان میں بہت سےبینک حج کے لیے غیرسودی قرض فراہم کرتے ہیں۔ کیااسلام میں اس کی اجازت ہےکہ بینک سےغیرسودی قرض لیاجائےابتداءً کچھ فیصد اداکردیاجائےپھربعدمیںقسطوارادائیگی کی جائے، اگرنہیں توپھرمیزان،دبئی اسلامک بینک وغیرہ کیوں اس کی پیشکش کرتے ہیں، کیااس سے متعلق کوئی فتویٰ ہے؟
قطع نظراس بات کےبینک سےغیرسودی قرض لیناجائزہےیانہیں اورآیابینک کافراہم کردہ قرضہ واقعۃً غیرسودی ہوتابھی ہےیانہیں؟ یہ بات سمجھ لیناضروری ہےکہ اسلام میں حج کی فرضیت کےلیےکچھ شرائط ہیں ان کامطلب یہ ہےکہ اس شخص کےپاس اتنی رقم موجودہو جس سےحج کی آمدورفت،دوران حج قیام وطعام اورواپسی تک اہل وعیال کےعلاوہ جن لوگوں کانان ونفقہ اس کے ذمہ لازم ہے ان کاانتظام ہوسکے۔ اگرکسی شخص کےپاس اپنی ذاتی ملکیت میں اتنی رقم نہیں ہےتو شریعت اس کواجازت نہیں دیتی کہ کسی سے قرضہ لےکرحج کی ادائیگی کے لیےجائے، خواہ یہ قرضہ سودی ہویاغیرسودی، اس کی فراہمی بینک کرےیاکوئی اور،بہرحال نوعیت کچھ بھی ہوقرض لےکرحج کے لیے جانےکی شرعاً اجازت نہیں ہے، باقی حج کےلیےسودی یاغیرسودی قرضوں کی پیشکش کرنےوالے اداروں کےاہلِ علم ذمہ داروں سے اس کی وجہ معلوم کی جائے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143101200284
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن