بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ض کاصحیح تلفظ کیا ہے ؟


سوال

برائے مہربانی یہ بتائیں مجھے صحیح ض ادا کرنا آتا ہے اور میں نہیں ادا کروں تو کیسا ہے اور مہربانی فرماکر تفصیل سے بتادیں کہ داد اور ض کی ادائیگی کہاں سے ثابت ہے؟ہم قرآن پڑھتے ہیں اورعربی میں پڑھتے ہیں تو اردوض کیوں پڑھتے ہیں ؟اورپیش امام جب کہ عالم ہے،قاری ہے پھربھی وہ ادا نہ کرے یا تبدیل کرکے پڑھےکیونکہ اس پر بریلوی لوگ اکثرسوال کرتے ہیں کہ یہ صحیح نہیں ہے اس کے علاوہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک جماعت کو چھوڑوں کیا میں سب جماعتوں کی وہ باتوں کو چھوڑ دوں جن پر اختلاف ہےاوروہ اپناؤں جن پراختلاف نہیں ہےتو کیسا ہے؟کچھ مسئلوں میں لوگ کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ سے یہ ثابت ہےاورامام مالک سے یہ ،تو لازمی کسی ایک کو مانوں؟سمجھ نہیں آتا کہ کس کو مانوں اور کس کونہیں؟اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو کہا ہے کہ برےشوہر کو بری بیوی اوراچھے شوہرکو اچھی عورت ملے گی۔ یہ دنیا کے لیے ہی کہا ہے یا حساب کتاب کے بعد ؟

جواب

معلوم ہوناچاہیے کہ ض اورددو مستقل حروف ہیں جس طرح ان میں ظاہری فرق ہے اسی طرح ادائیگی وتلفظ کے درمیان فرق ہونابھی ضروری ہے ۔ورنہ فرق پرقدرت رکھنے کے باوجود ضکی جگہ د اوراس کے برعکس پڑھنے والے کی نماز درست نہیں ہوگی ،یہ تصریح فقہ کی تمام کتب میں موجود ہے ،دوسری بات یہ کہ عربی حروف بالخصوص قرآنی کلمات کوان کے بنیادی فر ق کالحاظ کرتے ہوئے ادا کرنا یہ شرعاًمطلوب ہے ،حروف کاتلفظ بنیادی طورپریہ منقولی چیز نہیں ہے بلکہ مسموعی ہے ۔لہٰذاعرب کے لوگ جس انداز سے قرآنی حروف اداکرتے ہیں ا س طرح اداکرنایہ فرمان نبوی ﷺکاتقاضاہے ظاہرہے عربوں کی بنسبت عجمی مسلمان تعداد میں زیادہ ہیں بلکہ خود کئی عرب بھی ایسے ہیں جوعامی لغت کے عادی ہوتے ہیں اور قرآن مجید کاصحیح تلفظ نہیں کرسکتے ا س لئے ازراہ ِتعلّم یہ لازم قرارپاتاہے کہ قرآن کریم کے الفاظ کی ادائیگی کاصحیح اہتمام ہو ،اسی اہتمام کانام تجوید ہے ،اسی اہتمام کوحروف کی تصحیح اور مخارج کی تعیین وتفریق سے تعبیر کیاجاتاہے جومسلمان قرآن کریم کے الفاظ کی صحیح ادائیگی کااہتمام ضروری سمجھتاہو وہ معترض بن کریہ سوال قطعاًنہیں کرسکتا کہ حروف کی ادئیگی کہاں سے ثابت ہے کیونکہ اس قسم کے سوالات وہی آدمی کرسکتاہے جس سے اس سوال کی توقع بھی کی جائے کہ دانتوں سے کھاناچبانا کہاں سے ثابت ہے ۔ سائل کویہ بھی معلوم ہے کہ ضاورددونوں اصلاًعربی لفظ ہیں ،البتہ لفظی شناخت کے لیے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ضکی آواز ظذاور زسے قریب ہے اور دال سے بعید تر ہے۔راضی نامہ ، رضامند ہونا،قاضی کی قضا،یہی وجہ ہے کہ فقہاء فرماتے ہیں کہ ضکااپنامخرج ہے جہاں سے اس کی ادائیگی ہونی چاہیے اگر کسی نے اس طورپراداکیاکہ ظاءیازاکی آواز محسوس ہوئی تو اس کی نماز ہوجائے گی جبکہ دال پڑھنے سے صاحب علم کی نماز میں فساد آجائے گا،عالمگیری. مزید یہ فی الوقت موجودہ سب جماعتوں میں سے کسی ایک جماعت سے وابستہ ہوجاناضروری ہے ورنہ اس کامطلب یہی ہوگا کہ موجودہ جماعتوں سے بیزاری پرنئی راہ پرنئی جماعت بنالی ،موجودہ جماعتوں بالخصوص مذاہب اربعہ پراعتراض کرنے والے حضرات بظاہر جماعتی شناختوں پرمعترض ہوتے ہیں مگر حقیقت میں وہ اپنے کردار وعمل سے نئی فکروالی جماعت بنانے کے مرتکب ہوجاتے ہیں اگرکسی شناخت کے ساتھ ایک فکرپرمجتمع ہونا صحیح ہے تو پھر سابقہ جماعتوں والے لوگ برحق ہیں معترض کواعتراض کاحق نہیں ہوناچاہیے اگر بزعم خویش وہ سب غلط ہیں تو ان سابقہ لوگوں کی غلطی پرانی ہے اورمعترض کی غلطی بالکل نئی نویلی ہے لہٰذا جس کے ہاتھوں پرامت میں تفرقہ کاتازہ خون لگاہو پہلے اس سے باز پرس ہونی چاہیے پھر دوسروں کی باری آئے گی اور حنفی چونکہ سب سے قدیم ہیں اس لیے ان کی بار ی آخر ہی میں آئے گی ۔ بہر کیف یہ حقیقت سامنے رہنی چاہیے کہ حنفی ،مالکی ،شافعی ،یاحنبلی یہ سارے سلسلےمنزل محمدی تک پہنچے کے مختلف راسے ہیں سب راستوں کے رہنماوٴں کامقصد امت کومنزل محمدی میں پہنچاناہے ،ان میں تو تضاد کی کوئی بات نہیں کیونکہ اگر ایک گھر تک پہنچے کے لیے متعدد راستے ہوں تو اسے گھر تک پہنچے کی سہولت ہی کہاجاتاہے پیچید گی سے تعبیر نہیں کیاجاسکتا ،نہ ہی کوئی عقل مند آدمی اس پراعتراض کرسکتا ہے ۔اس لیے ہماراعقیدہ یہ کہ جو آدمی صدق دل کے ساتھ دین محمدی پرعمل پیر اہونے کی نیت سے مذکورہ راستوں میں سے جوبھی راستہ اختیارکرے اسے دیندار سمجھیں گے اور اسے منزل محمدی کارہرو کہیں گے لیکن شرط یہ کہ کسی ایک راستے کواختیارکرنے کے بعد ڈگمگاھٹ کاشکار نہ ہو ،نفسیاتی تقاضوں کی زد میں آکر ادھر ادھر لپک لپک کر آسانیوں کامتلاشی نہ بنے کیو نکہ اسے دین کاتابعدار کہنامشکل اور نفس کاپیر و کار کہنا آسان ہوجاتاہے ۔ باقی قرآن کریم نے اچھے اور برے جوڑوں کاتذکرہ کیاہے ،مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کے بقول اس کاتعلق دنیاوی اعتبار سے ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے طبائع میں طبعی طور جوڑ رکھا،ہرقسم کے لوگ اپنی طرح کے لوگوں کی طرف میلان رکھتے ہیں جس کے نتیجہ میں ان کامیلان بھی ہوجاتا ہے . فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200373

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں