بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدالتی خلع کی صورت میں نکاح پڑھانے کا حکم


سوال

میں ایک جگہ نکاح پڑھانے گیا، دولہا والے ہمارے شہر شہدادکوٹ کے اور دلہن والے سکھر کے تھے۔ پتا چلا کہ دلہن پہلے شادی شدہ تھی، گھر والوں نے کورٹ میں کیس کرکے کورٹ سے خلع لیا ہے۔ میں نے کہا: وہ نکاح ہی نہیں ٹوٹا۔ پھر یقین دہانی کے لیے جامعہ بنوری ٹاؤن کے مولانا انعام الحق صاحب کے پاس کال کی تو انہوں نے بھی ایسا ہی فرمایا۔ پھر بھی دولہا دلہن والے مطمئن نہ ہوئے اور دلہن والے ہمیں سکھر کے مفتی عبدالباری صاحب کے پاس لے گئے تو انہوں نے بھی ایسا ہی فرمایا کہ کورٹ کے خلع دینے سے نکاح نہیں ٹوٹا۔ بارات کو واپس اپنے شہر شہدادکوٹ لے آیا تو دولہا والے ہمارے شہر کے مفتی عبدالغنی شیخ صاحب کے پاس گئے جو رائیونڈ کے فاضل ہیں اور تخصص ایک سالہ مفتی حبیب اللہ شیخ رحمہ اللہ کے پاس کیا تھا۔ مفتی عبدالغنی شیخ صاحب نے فتویٰ لکھ کر دیا کہ: کورٹ کے خلع دینے سے بھی نکاح ٹوٹ گیا، وہ لڑکی اب کسی سے بھی نکاح کر سکتی ہے۔ اس فتوی کے ملنے پر دولہا والے ہمارے شہر کے جماعت اسلامی کے حافظ یعقوب کمبوہ کو سکھر لے جا کر اپنے لڑکے دولہا کا نکاح اس لڑکی سے کرا کر لے آئے۔ شادی کو ایک سال گذر گیا ہے۔ اب کچھ ساتھی شک میں پڑ رہےہیں اور پوچھنا چاہتے ہیں کہ: اب کیا حکم ہے ایسے میاں بیوی کے بارے میں؟ مفتی عبدالغنی شیخ صاحب کے بارے میں جس نے کورٹ کے خلع سے نکاح ٹوٹنے کا فتویٰ لکھ کر دیا؟ اور دولہا دلہن کے رشتہ داروں کے بارے میں جنہوں نے ایسا نکاح کرایا؟ نکاح پڑھنے والے کے بارے میں؟ اب کوئی طریقہ بتلائیں کہ دولہا دلہن کو ایک دوسرے کیلئے حلال کیسے ہوں؟

جواب

مذکورہ مفتی صاحب اور قاضی صاحب کا عمل درست تھا یا نہیں ؟ خلع نامہ کے کاغذات دیکھ کرجواب دیاجاسکتاہے۔


فتوی نمبر : 143604200003

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں