بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چار لڑکے تین لڑکیاں اور ایک بیوہ میں میراث کی تقسیم کا حکم


سوال

میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اسلامی طریقے سے میرے والد کی میراث کیسے تقسیم ہو گی ؟میرے والد نے اپنے انتقال کے بعد اپنے پیچھے ایک بیوہ چار لڑکے اور تین لڑکیاں چھوڑیں ہیں ۔انہوں نے اپنی وفات سے چند ماہ قبل اپنی ڈائری میں چند چیزیں لکھی تھیں۔1۔ میرے پاس کچھ رقم ہے جو کہ مذکورہ بالا افراد میں تقسیم کردی جائے ۔2۔ میرے والد کے نام پر ایک گاڑی ہے ۔3۔میرے والد کی ایک دکان ہے جو انہوں نے اپنی ڈائری میں صرف میری والدہ کے نام کی ہے صراحت کے ساتھ۔اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا میرے والد کا یہ طریقہ کار درست ہے ؟کیا میری والدہ کا میرے والد کی تمام پراپرٹی جائیداد میں حصہ موجود ہے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں میت کے تمام ترکہ نقدی اور منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کو 88 حصوں میں تقسیم کیا جائے، 11 حصے بیوہ کو، 14حصے ہر ایک بیٹے کو اور 7،7 حصے مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے ۔ 1۔ ڈائری میں رقم کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ وارثوں کے حق میں وصیت ہے، جس کی ضرورت نہیں تھی ہروارث کا حصہ قرآن کریم میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اس کے مطابق ورثاء مرحوم کی جائیداد میں حصہ دار ہوں گے۔ 2۔ یہ گاڑی آپ کے والد مرحوم کا ترکہ ہے اورمذکورہ تفصیل کے مطابق شرعی حصص کے حساب سےتقسیم ہو گی ۔ 3۔ اگر آپ کے والد مرحوم نے دکا ن کا قبضہ والدہ کو منتقل کردیا تھا تو وہ ان کے نام ہو گی اوراگر مکمل قبضہ منتقل نہیں کیا تھا صرف کاغذی طور پر ان کے نام کیا تھا تو دونوں چیزوں کو میراث میں تقسیم کیا جائے گا، نیز وفات کے وقت آپ کے والد کی ملکیت میں جو کچھ تھا آپ کی والدہ بھی اپنے شرعی حصے کے مطابق اس میں شریک ہیں، الگ سے کوئی وصیت اور غیر شرعی طور پر ہبہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200289

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں