بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تسبیحِ تراویح سے متعلق وضاحت


سوال

میں نے آپ کے فتاویٰ میں ترویحہ میں پڑھی جانے والی مشہور دعا کے متعلق پڑھا، اس مسئلہ میں مزید معلومات کی غرض سے بطورِ مذاکرہ یہ ارسال کر رہا ہوں:

آپ ترویحہ میں کیا پڑھتے ہیں ؟

فرمایا : شرعاً  کوئی ذکر متعین تو ہےنہیں، باقی میں پچیس مرتبہ درود شریف پڑھ لیتاہوں۔[تحفۂ رمضان ص۱۱۱] 

مرغوب الفتاوی [ج3ص429 ] پر حاشیہ میں یہ لکھا ہے : ہمارے اس زمانہ میں تسبیحِ تراویح میں بہت غلو ہونے لگاہے، خصوصاً اکثر مساجد میں۔  

خلاصہ :ترویحہ میں پڑھنے کی کوئی دعا احادیث سے ثابت نہیں ہے، یہ جو مشہور تسبیح ہے اس کے پڑھنے کی گنجائش ہے ،لیکن اس کو ضروری نہیں سمجھنا چاہیے،اور نہ بالجہر پڑھنا چاہیے۔اس کےبجائےوہ اذکارِمسنونہ پڑھناجن کی فضیلت ثابت ہے زیادہ بہتر ہے ،اور یہی سلفِ صالحینؒ اور اکابرینِ دیوبندؒ کا معمول رہا ہے ۔واللہ الموفق والہادی الی الصواب

جواب

تراویح میں ہر چار رکعت کے بعد کوئی خاص  تسبیح یا دعا احادیث سے  ثابت نہیں ہے،  تسبیحِ تراویح کے نام سے جو تسبیح ہمارے ہاں معروف ہے وہ بعض فقہاء نے مختلف روایات کے الفاظ کو جمع کرکے عوام الناس کی سہولت کے لیے مرتب کردی ہے؛ لہٰذا اس کو لازم نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ  مطلقاً  کوئی بھی دعا یا تسبیح پڑھی جا سکتی ہے اور  جس طرح ہر چار رکعت کے بعد کوئی دعا پڑھ لینی چاہیے، اسی طرح 20 رکعت کے بعد اور وتر سے پہلے بھی پڑھ لینی چاہیے۔ 

لیکن تکلفات اور التزامات کے بغیر تسبیح کے مذکورہ کلمات (جو علامہ شامی رحمہ اللہ نے قہستانی کے حوالے سے ذکر فرمائے ہیں)  پڑھنے میں حرج نہیں ہے، فقہاءِ کرام نے جب اس دعا کا ذکر کیا ہے تو بغیر التزام اور غلو کے اسے کبھی پڑھ لینا چاہیے، نیز اکابر نے بھی اس کے التزام اور غلو (مثلاً بآوازِ بلند اجتماعی طور پر پڑھنے، یا اسی کو لازم سمجھنے، اس سے کم یا زیادہ نہ پڑھنے) سے منع کیا ہے، نہ کہ مطلقاً اسے پڑھنے سے۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 46):

"(يَجْلِسُ) نَدْبًا (بَيْنَ كُلِّ أَرْبَعَةٍ بِقَدْرِهَا وَكَذَا بَيْنَ الْخَامِسَةِ وَالْوِتْرِ) وَيُخَيَّرُونَ بَيْنَ تَسْبِيحٍ وَقِرَاءَةٍ وَسُكُوتٍ وَصَلَاةٍ فُرَادَى، نَعَمْ تُكْرَهُ صَلَاةُ رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ".

"(قَوْلُهُ: بَيْنَ تَسْبِيحٍ) قَالَ الْقُهُسْتَانِيُّ: فَيُقَالُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ: «سُبْحَانَ ذِي الْمُلْكِ وَالْمَلَكُوتِ، سُبْحَانَ ذِي الْعِزَّةِ وَالْعَظَمَةِ وَالْقُدْرَةِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْجَبَرُوتِ، سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ، سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ، لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ نَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، نَسْأَلُك الْجَنَّةَ وَنَعُوذُ بِك مِنْ النَّارِ»، كَمَا فِي مَنْهَجِ الْعِبَادِ. اهـ".  (شامي، كتاب الصلاة، باب الوتر و النوافل، مبحث صلاة التراويح، ٢/ ٤٦)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200118

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں