بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کا ٹی وی بیچنے کا حکم


سوال

کیا ہم اپنے گھر کا ٹی وی بیچ سکتے ہیں کسی کو ؟ اگر بیچ دیں تو اس کی رقم کا کیا حکم ہے? آیا صدقہ کریں یا خود استعمال کرنے میں کوئی قباحت تو نہیں ہے؟

جواب

ٹی وی  کا استعمال جاندار کی تصاویر پر مشتمل پروگراموں کے دیکھنے میں ہوتا ہے اور یہ پروگرام فحش نہ بھی ہوں تب بھی بوجہ تصویر ہونے کے از روئے شرع ان کا دیکھنا اور دکھانا حرام ہے، جب کہ ٹی وی پر آنے والے اکثر پروگرام فحاشی، عریانیت اور بے حیائی پر مشتمل ہوتے ہیں، لہٰذا اصل حکم تو یہی ہے کہ نہ تو ٹی وی کو گھر میں رکھنا جائز ہے اور نہ ہی ٹی وی کی خرید و فروخت جائز ہے ،اگر کوئی آدمی خرید چکا ہو اور اب اسے ٹی وی دیکھنے کے گناہ کا احساس ہوا ہو اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس گناہ کبیرہ سے توبہ کی توفیق دے دی ہو تو اب اگر وہ اس گناہ سے جان چھڑانے کے لیے  ٹی وی  کسی اور  کو بیچے گا تو وہ دوسرا شخص اس گناہ میں مبتلا ہوگا اور یہ پہلا شخص اس کے اس گناہ کا ذریعہ بننے کی وجہ سے معاون اور مددگار ہوگا، اور گناہ کے کاموں میں معاون بننا جائز نہیں ہے۔

چنانچہ اسے چاہیے کہ بجائے ٹی وی بیچنے کے  اس معصیت کے آلہ کو توڑ کر ضائع کردے، یا  ٹی وی کوکھول کر تمام پرزے الگ الگ کردے، پھر جو پرزے کسی مباح کام میں استعمال ہو سکتے ہوں تو ان پرزوں کو نکال کر الگ سے ان کو بیچنا جائز ہوگا،  اسی طرح جس شخص سے یہ ٹی وی خریدا تھا اس کو قیمتِ خرید یا اس سے کم پر واپس بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن قیمتِ خرید سے زیادہ پر بیچ کر منافع حاصل کرنا جائز نہیں ہوگا، اسی طرح قیمت خرید پر کسی کافر کو بھی فروخت کر نا جائز  ہے ؛ کیوں کہ وہ فرعی مسائل کا مکلف نہیں ہے، اگر ٹی وی بصورتِ اسکرین ہو تو ایسے آدمی پر اس کو فروخت کرنا جائز ہوگا جس کے بارے میں یہ بات معلوم ہو کہ وہ اسے کسی جائز کام میں استعمال کرے گا، مثلاً:  ہوائی اڈوں (ایئر پورٹ) وغیرہ پر سامان کی چیکنگ اور ہوائی جہاز کے نظام الاوقات بتلانے یا مختلف اعلانات کرنے کے لیے استعمال کرنا،  اسٹاک ایکسچینج میں حصص  کی تفصیلات وغیرہ دکھانے کے لیےاستعمال کرنا۔

جن صورتوں میں ٹی وی بیچنا منع لکھا گیا ہے ان صورتوں میں بیچنے کی صورت میں اس  رقم کا استعمال کرنا بھی منع ہے، اس رقم کو صدقہ کردیا جائے، اسی طرح قیمتِ خرید سے زیادہ پر بیچنے کی صورت میں بھی اضافی رقم کو صدقہ کردیا جائے، اور بیچنے کی جو جائز صورتیں لکھی گئی ہیں ان میں اس رقم کا استعمال کرنا بھی جائز ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 391)

'' (و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمراً)؛ لأن المعصية لا تقوم بعينه بل بعد تغيره، وقيل: يكره لإعانته على المعصية، ونقل المصنف عن السراج والمشكلات: أن قوله ممن أي من كافر أما بيعه من المسلم فيكره، ومثله في الجوهرة والباقاني وغيرهما، زاد القهستاني معزياً للخانية: أنه يكره بالاتفاق.

(بخلاف بيع أمرد ممن يلوط به وبيع سلاح من أهل الفتنة)؛ لأن المعصية تقوم بعينه، ثم الكراهة في مسألة الأمرد مصرح بها في بيوع الخانية وغيرها، واعتمده المصنف على خلاف ما في الزيلعي والعيني وإن أقره المصنف في باب البغاة. قلت: وقدمنا ثمة معزياً للنهر أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريماً وإلا فتنزيهاً. فليحفظ توفيقاً.

خلاصۃ الفتاویٰ (ج:۳ ؍ ۱۰۰ )

''و بیع الغلام الامرد ممن یعلم انہ ممن یعصی اللہ یکرہ ؛ لانہ اعانۃ علی المعصیۃ''۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201289

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں