بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر میں بیٹے کو نہ آنے دینے کی قسم کھانا


سوال

 کسی شخص نے غصہ میں آکر اپنے بیٹے کو پشتو میں یہ جملہ کہا ’’ زما دی دیرش سپاری قرآن اووی دا ہلک بہ زو پہ دی کور کی نہ پریدم‘‘۔ جس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ مجھے قرآن کے تیس پاروں کی قسم میں اس لڑکے کو اس گھر میں نہیں چھوڑں گا۔

اب سب سے پہلے اس بات کی راہ نمائی فرمادیں کہ پشتو زبان میں ان الفاظ سے قسم ہوگی؟

دوسرا یہ کہ اب وہ شخص اپنے قسم کو کب توڑنے والا شمار ہوگا ؟

موجودہ دور میں قسم کے کفارہ کوذرا کھل کر بیان فرمادیں کہ کپڑا کس نوعیت کا ہو؟ اور کھانا کن کن کو کھلا سکتے ہیں ؟

اگر اس نے وہ گھر بیچا اور پھر کسی اور گھر میں ساتھ رہنے لگے تو قسم کا کفارہ دینا ہوگا؟

کیا اس طرح کی قسم اٹھانا جس کے نتیجے میں باپ بیٹے کے درمیان تعلقات ختم ہوجائیں اور بات چیت تک نہ ہو اور دل میں نفرت کی سی صورت ہو جائز ہے؟ اگر نہیں تو جس سے اس طرح کی غلطی سرزد ہو، اس کا ازالہ کیسے ہو؟

جواب

 مذکورہ الفاظ سے قسم منعقد ہوگئی ہے؛  لہذا اگر اس کو پورا نہ کیا جائے تو اس کا کفارہ بھی لازم ہوگا۔

اگر باپ نے مذکورہ قسم بیٹے کے کسی سنگین شرعی و عرفی جرم پر نہیں  کھائی تو حالف  کو ایسی قسم نہ کھانی چاہیے تھی، اس لیے کہ اس میں ترکِ تعلق اور قطع رحمی ہے؛ اسے چاہیے کہ اپنی قسم توڑ دے یعنی بیٹے کو گھر میں آنے دے اور اس سے تعلقات قائم کرلے، اور توبہ و استغفار بھی کرے اور قسم کے کفارہ کے طور پر دس غریبوں کو  دو وقت کا کھانا کھلادے، یا ایک ہی غریب کو دس دن تک دو وقت کا کھانا کھلادے،  جو بھی غریب مستحقِ زکاۃ ہو اس کو کھانا کھلا سکتے ہیں۔ یا دس غریبوں کو کپڑا دے ، سب کو ایک ایک جوڑا دے۔ کھانا اور کپڑا درمیانی نوعیت کا ہونا چاہیے۔ کھانے کی جگہ دس غریبوں کو ایک ایک صدقہ فطر کی رقم بھی دیا جاسکتی ہے، یا ایک ہی غریب کو دس دن تک ایک ایک صدقہ فطر کی رقم بھی دی جاسکتی ہے۔

اگر گھر تبدیل کرلیا اور بیٹے کو گھر میں آنے دیا تو  کفارہ   نہیں  دینا ہوگا۔
قال اللّٰه تعالیٰ: {لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰهُ بِاللّٰغْوِ فِیْ اَیْمَانِکُمْ وَلَکِنْ یُؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْاَیْمَانَ، فَکَفَّارَتُهُ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَة فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلاثَةِ اَیَّامٍ ذٰلِکَ کَفَّارَةُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوْا اَیْمَانَکُمْ، کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَکُمْ اٰیَاتِه لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ} [المائدة: ۸۹]
"عن عبد الرحمن بن سمرة رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: إذا حلفت علی یمین فرأی غیرها خیرًا منها فأت الذي هو خیر وکفر عن یمینک". (صحیح البخاري رقم: ۶۶۲۲، صحیح مسلم / الأیمان رقم ۱۶۵۲، إعلاء السنن ۱۱؍۳۹۳ دارالکتب العلمیة بیروت)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (3/ 297):
"ولو قال لها: إن دخلت هذه الدار، لا بل هذه الدار الأخرى، فأنتِ طالق، تعلق طلاقهما بدخول الدار الأخرى لا غير؛ لأن قوله: إن دخلت هذه الدار مجرد الشرط، والرجوع صحيح، وبقوله: "لا بل هذه" رجع عنه، وأقام الدّار الثانية مقام الدار الأولى؛ فلهذا تعلق طلاقهما بدخول الدّار الأخرى".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (4/ 325):

"والأصل أن الوصف في المعين لغو إن لم يكن داعياً إلى اليمين وحاملاً عليها، وإن كان حاملاً عليها تقيدت به، كمن حلف أن لا يأكل هذا البسر فأكله رطباً لم يحنث.
(قوله: وفي دار بدخولها خربة، وفي هذه الدار يحنث، وإن بنيت داراً أخرى بعد الانهدام) أي في حلفه "لايدخل داراً" لايحنث بدخولها خربةً، وفيما إذا حلف لايدخل هذه الدار فإنه يحنث بدخولها خربةً، وإن بنيت داراً أخرى بعد الانهدام؛ لأن الدار اسم للعرصة عند العرب والعجم، يقال: دار عامرة، ودار غامرة أي خراب، وقد شهدت أشعار العرب بذلك، والبناء وصف فيها، غير أن الوصف في الحاضر لغو، والاسم باق بعد الانهدام، وفي الغائب تعتبر، وأراد بالخربة الدار التي لم يبق فيها بناء أصلاً، فأما إذا زال بعض حيطانها وبقي البعض فهذه دار خربة، فينبغي أن يحنث في المنكر إلا أن يكون له نية، كذا في فتح القدير".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201305

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں