بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گریجوئیٹی گروی رکھ کر بینک سے سودی قرضہ لینا ناجائز ہے


سوال

عرصہ دراز سے بیرونِ  ملک میں ایک تعمیراتی کمپنی میں نوکری کے فرائض انجام دے رہا ہوں، اس کمپنی میں کچھ حالیہ قوانین میں تبدیلی کے مطابق ہم اب گریجوئیٹی کا مطالبہ صرف ملازمت کے ختم ہونے پر ہی کرسکتے ہیں۔ جب کہ کمپنی کے حالات کچھ سازگار نظر نہیں آ رہے اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوے کمپنی میں کچھ ملازمین ایک مخصوص بینک سے کمپنی کے لیٹر/ رضامندی سے اپنی گریجوئیٹی کو گروی رکھتے ہو ئے  قرضہ حاصل کر رہے ہیں جس پر کچھ اضافی رقم بھی ادا کی جاے گی ۔ مگر اس طرح کرنے سے کم ازکم اپنی گریجوئیٹی سیکیور کی جا رہی ہے۔ مجھے بھی کچھ نے ایسا کرنے کا مشورہ دیا ہے؛ کیوں کہ بندہ کا  پندرہ سال میں اس نوکری کے علاوہ کوئی بھی کاروبار اور سرمایہ نہیں، اور ملازمت کے اختتام پر ملنے والے رقم سے ہی پاکستان /اپنے ملک میں کاروبار کا ارداہ ہے ، اب اگر کمپنی کے خراب متوقع حالات کی صورت میں اگر ان کا ملنا مشکل ہو گیا تو وقتی پریشانی کا سامنے ہوسکتا ہے، مگر ان سب باتوں کے باوجود بینک سے مطلوبہ رقم لینا کیسا ہے؟  بظاہر تو یہ صاف سود نظر آ رہا ہے، مگر کچھ لوگ بہت اعتماد سے اسے جائز گرادن رہے ہیں۔ اس بارے راہ نمائی کی درخواست ہے!

جواب

سائل کا خیال درست ہے، گریجوئیٹی کے پیسے کسی بینک میں گروی رکھوا کر اس سے رقم لینا اور اس پر اضافہ کرکے لوٹانے کا معاہدہ کرنا شرعاً سود ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔ بعض لوگوں کا اسے جائز قرار دینا شرعاً درست نہیں ہے۔

"عن جابر رضي الله عنه قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه، وقال: «هم سواء»". (مشكاة المصابيح ، ۲/۸۵۵، المكتب الإسلامي)

ترجمہ :حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے سود لینے والے اور دینے والے اور لکھنے والے اور گواہی دینے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا یہ سب لوگ اس میں برابر ہیں۔  (از مظاہرِ حق)

" (وآكل الربا) ، أي: ونهى آكل الربا عن أكله، وكذا نهى موكله عن إطعامه غيره، ويقال: المراد من الآكل آخذه كالمستقرض، ومن الموكل معطيه كالمقرض، والنهي في هذا كله عن الفعل، والتقدير: عن فعل الواشمة، وفعل الموشومة، وفعل الآكل وفعل الموكل". (عمدة القاري شرح صحيح البخاري ، ۱۱/۲۰۳،دار إحياء التراث العربي) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200217

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں