بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کوئی جائز سامان منگوائے اور اس پر بتائے بغیر کمیشن رکھنا


سوال

اگر کوئی جائز سامان منگوائے اور اس پر بتائے بغیر کمیشن رکھا جائے تو  یہ جائز ہے؟

جواب

اگر بطورِ وکیل کسی کے لیے سامان منگوایا  جائے تو وکیل کا بتائے بغیر اپنے لیے کمیشن لینا جائز نہ ہوگا۔

درر الحکام في شرح مجلة الأحکام میں ہے:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة". (الکتاب الحادي عشر الوکالة، الباب الثالث، الفصل االأول، المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل)

شامی (۷: ۹۳، )میں ہے:

"قوله: ”فأجرته علی البائع“ : ولیس له أخذ شيءٍ من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقیقةً، شرح الوهبانیة، وظاهره أنه لایعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له".

شرح وهبانیة (۲: ۷۸)میں ہے:

"أن البائع لو باع العین بنفسه بإذن صاحبها لیس له أن یأخذ شیئاً من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقیقةً، ویجب الأجر علی البائع؛ لأنه فعل بأمره. والله أعلم".

مجمع الضمانات (النوع السابع عشر، ضمان الدلال ومن بمعناہ ص ۵۴ط دار عالم الکتب، بیروت)میں ہے:

"الدلال لو باع العین بنفسه بإذن مالکه لیس له أخذ الدلالة من المشتري إذ هو العاقد حقیقةً، وتجب الدلالة علی البائع إذ قبل بأمرالبائع". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200223

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں