بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کے ضابطہ کی خلاف ورزی کرنے والے ملازم کے بقایا جات اور واجبات ادا نہ کرنا


سوال

"ایک کپمنی کے عہدے دار جن کو  ماہانہ مشاہرہ کے علاوہ دوسری مراعات بھی  حاصل ہیں اور کمپنی کی شرائط کے مطابق دورانِ ملازمت کوئی دوسرا کام یا بزنس بھی  نہیں کر سکتے ہیں، انہوں نے کمپنی کی اجازت کے بغیر کمپنی کی طرح کا کام شروع کیا اور کمپنی کے اپنے زیر تسلط ملازمین کو بھی استعمال کیا ، جب یہ راز اِفشا ہوا تو استعفا دے دیا ۔ اور کمپنی سے اپنے بقایاجات اور واجبات کا مطالبہ کر دیا ۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا شرعی طور پر کمپنی ان کے واجبات ادا کرنے کی پابند ہے جب کہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنا بزنس شروع کیا اور کمپنی کو نقصان پہنچایا  اور کمپنی کے اثاثہ جات کا استعمال بھی  کیا ہے؟

جواب

کمپنی کے ملازمین کی حیثیت "اجیر خاص" کی ہوتی ہے، وہ  کمپنی میں ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے کی صورت میں  اجرت (تن خواہ)  کا مستحق ہوتے  ہیں ، اور اس ملازمت کے اوقات میں دوسرا کوئی کام نہیں کرسکتے،  البتہ ملازمت کے مقررہ اوقات کے علاوہ دیگر اوقات میں اگر کوئی اپنا کام کرتے ہیں تو  اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر ان کے اس دوسرے کام کرنے سے تھکاوٹ وغیرہ کی وجہ سے کمپنی میں ان کے کام پر اثر پڑتا ہو اور وہ اپنا مفوضہ کام صحیح طریقہ سے نہیں کرسکتے تو ان کے لیےایسا  کرنا درست نہیں ہوگا، یا اگر کمپنی نے اپنی رازداری وغیرہ کی وجہ سے ان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ آپ دوسری جگہ کام نہیں کریں گے، تب بھی ان کے لیے وعدہ خلافی کرنا جائز نہیں ہوگا، اور بلاعذر وعدہ خلافی کی صورت میں ایسے ملازمین گناہ گار ہوں گے۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں مذکورہ ملازم کا اپنی کمپنی سے کیے ہوئے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے  کمپنی میں ملازمت کے دوران  اپنا دوسرا کمپنی جیسا ہی  بزنس شروع کرنا شرعاً وعدہ خلافی تھی جو کہ ناجائز ہے، اس لیے انہیں اس پر توبہ واستغفار کرنی چاہیے، تاہم دوسرے کاروبار سے جو آمدنی ہوئی ہے، وہ حرام نہیں ہوگی۔

باقی کمپنی کے بقایا جات سے مراد اگر  ان کی تنخواہ کا بقایا جات ہے اور وہ ملازمت کے اوقات میں حاضر بھی رہے ہیں  تو  وہ اس کے حق دار ہیں، کمپنی کے لیے ان کی تنخواہ میں سے کچھ کاٹنا  یا جمع شدہ تنخواہ انہیں واپس نہ کرنا مالی جرمانہ ہے جو ناجائز ہے۔ ہاں اگر واجبات سے مراد کمپنی کی طرف سے ملنے والے تبرعات ہیں، جس میں ملازم کی تنخواہ کا حصہ نہیں ہوتا مثلاً: پنشن کی رقم ، یا ان کی تنخواہ سے زائد فنڈ وغیرہ تو ضابطہ کی خلاف ورزی پر کمپنی اگر چاہے تو وہ فنڈ  ملازم کو نہ دے اس کی گنجائش ہے۔

نیز مذکورہ ملازم نے کمپنی کے جو ملکیتی  اثاثے استعمال کیے ہیں وہ واپس کرنے کے پابند ہیں، ورنہ اس کے بقدر قیمت ادا کرنے کے پابند ہیں، اگر وہ کمپنی کے ملکیتی اثاثے واپس نہیں کرتے تو کمپنی ان کے بقایا جات اور واجبات میں اس کو منہا کرسکتی ہے۔

     فتاوی شامی میں ہے:

"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل، فتاوى النوازل.

(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلاً، وعليه الفتوى ... (قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه، وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة".(6/70،  کتاب الاجارۃ، ط: سعید)

شرح المجلۃ میں ہے:

 "لایجوز لأحد  أن یاخذ  مال أحد  بلا سبب شرعي".(1/264،  مادۃ: 97، ط؛ رشیدیہ)

      البحر الرائق میں ہے:

"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".(5/41، فصل فی التعزیر،  ط:  سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200063

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں