بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی میں چند دن تاخیر سے آنے پر پورے ایک دن کی تن خواہ کی کٹوتی کا ضابطہ


سوال

اکثر کمپنوں میں لیٹ آنے پر پیسے کاٹے جاتے ہیں، مثلاً  تین لیٹ پر ایک پورے  دن کی تن خواہ اور کہیں دو لیٹ پر ایک پورے دن کی تن خواہ اور کہیں چار لیٹ پر ایک پوری دن تن خواہ کاٹی جاتی ہے، شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کمپنی کا مذکورہ  ضابطہ کہ دو، تین یا چار دن تاخیر سے آنے پر ایک پورے دن کی تنخواہ کاٹنا  شرعاً درست نہیں ہے،  اس  لیے کہ  ملازمین کی حیثیت شرعی طور پر اجیرِ خاص کی ہوتی ہے اور  اجیرِ خاص  ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تن خواہ)  کا مستحق ہوتا ہے، اور جس قدر اس نے اس میں کوتاہی کی اس قدر اس کی تن خواہ سے کٹوتی کی جاسکتی ہے، لیکن کچھ دن تاخیر سے آنے پر  ایک پورے دن کی تن خواہ کی کٹوتی  کرنا  جائز نہیں ہے؛ اس لیے ملازم نے جتنا وقت دیا ہے اتنے وقت کی تو وہ تن خواہ کا مستحق ہے ،البتہ تن خواہ میں کٹوتی کے جواز کی صورت یہ ہے کہ  ملازم کی ماہانہ تن خواہ کو  اس کی ملازمت کے مکمل وقت (مثلاً صبح 8 سےشام 5 بجے تک وغیرہ)میں تقسیم کردیا جائے پھر جس دن کوئی ملازم ملازمت کے وقت تاخیر سے آئے تو  اس کی تن خواہ  میں سے صرف اس تاخیر کے بقدر کٹوتی کی جاسکتی ہے۔

     فتاوی شامی میں ہے:

"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل، فتاوى النوازل.

(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلاً، وعليه الفتوى ... (قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه، وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة". (6/70،  کتاب الاجارۃ، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200083

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں