بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چاشت، اشراق اور اوابین کی نماز کی تعداد


سوال

1- نفل نماز کب ادا کر سکتے ہیں؟ 

2-  چاشت اشراق اور اوابین کی کتنی رکعات پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

1- نفل نماز کے لیے ممنوع اوقات یہ ہیں:

* طلوع  کاوقت (سورج طلوع ہونے سے لے کر ایک نیز بلند ہونے تک، تقریباً 10 منٹ)

* زوال کا وقت۔

* غروب کا وقت۔

* فجر کے وقت۔ (یعنی صبح صادق ہونے سے لے کر سورج طلوع ہونے تک فجر کے مکمل وقت میں فجر کی سنتوں کے علاوہ نوافل ممنوع ہیں)

*عصر کے فرض پڑھنے کے بعد سے مغرب کا وقت داخل ہونے تک ۔

مذکورہ اوقات کے علاوہ بھی بعض عوارض کی وجہ سے نفل نماز ادا کرنا مکروہ ہوتاہے، مثلاً: خطبہ جمعہ کے دوران، فرض نماز کھڑی ہوجائے تو سوائے فجر کی دوسنت کے نفل پڑھنا ممنوع ہے، مغرب کا وقت داخل ہونے کے بعد مغرب کی نماز ادا کرنے سے پہلے نوافل ادا کرنا وغیرہ۔

2- چاشت کی نماز کم از کم دو رکعت ہے اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعت ہیں جب کہ افضل اور اوسط آٹھ رکعت ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 22):
"(و) ندب (أربع فصاعداً في الضحى) على الصحيح من بعد الطلوع إلى الزوال، ووقتها المختار بعد ربع النهار. وفي المنية: أقلها ركعتان وأكثرها اثني عشر، وأوسطها ثمان وهو أفضلها، كما في الذخائر الأشرفية؛ لثبوته بفعله وقوله عليه الصلاة والسلام".

*  اشراق کی نماز بھی کم از کم دو رکعت ہیں. جیسا کہ  حدیث شریف میں آتا ہے:

سنن الترمذي ت بشار (1/ 727):
"عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى الغداة في جماعة ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تامة تامة تامة".

یعنی جو شخص فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے پھر اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے، پھر اس کے بعد دو رکعت پڑھے تو  اس کو  کامل حج و عمرہ کا ثواب ملے گا۔

*  اوابین کی نماز چھ رکعت ہیں اور جو شخص یہ نماز پڑھتا ہے اس کو بارہ سال کی عبادت کا ثواب ملتا ہے۔

سنن الترمذي ت بشار (1/ 559):
"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى بعد المغرب ست ركعات لم يتكلم فيما بينهن بسوء عدلن له بعبادة ثنتي عشرة سنةً". 

یعنی جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعات (نفل) ادا کرے اور ان کے درمیان کوئی بری (دنیاوی) بات نہ کرے تو یہ بارہ سال کی عبادت کے برابر شمار ہوں گی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200944

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں