بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پراویڈنٹ فنڈ کے متعلق ایک اشکال


سوال

مجھے پراویڈنٹ فنڈ بارے میں ایک سوال کرنا ھے۔ میں نے مفتی شفیع صاحب کی تحریر کی روشنی میں ایک سوال کرنا ھے جو آپ نے اس جواب میں لکھا ھے۰ http://www.banuri.edu.pk/readquestion/provident-fund-ke-bare-men-aik-shubah/2014-11-04 اگر ھمیں یے یقین ھو کہ پراویڈنٹ فنڈ کے ساتھ جو رقم دی جارہی حے وہ براہ راست بینک سے آرہی ہے تو اس صورت میں بھی پراویڈنٹ فنڈ جائز ہے؟ اور اگر ملازم اپنے اختیار سے رقم میں اضافہ نہ کررہا ہو تو پراویڈنٹ فنڈ کی اصل اور منافع کا استعمال کرنا بلکل جائز ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں؟

جواب

بینک رقم فراہمی کا محض ایک ذریعہ ہے، درحقیقت اس رقم کےاجرا  کا بند وبست متعلقہ ادارہ اپنے ملازم کے لیے کرتا ہے، بینک کا اس اجرا میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، اس لیے صرف بینک کے ذریعے اس رقم کی ادائیگی کی وجہ سے پراویڈنٹ فنڈ کے بیان کردہ شرعی حکم پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ ملازم اگر اپنے اختیار سے رقم کی کٹوتی کرواتا ہے، تب اس فنڈ میں سود سےمشابہت ہوگی، اور اگر ملازم کو اس بارے میں کوئی اختیار ہی نہیں، کٹوتی جبری ہوتی ہے، تو یہ متعلقہ ادارے کی طرف سے ملنے والا انعام ہے، جو ملازم کےلئے حلال ہے۔


فتوی نمبر : 143608200010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں