بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

"وماقدروا اللہ حق قدرہ ۔۔۔ الخ " بحری سفر کی دعا کی تحقیق


سوال

مشہور روایت جو عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے  کہ جو شخص سفر سے پہلے ﴿وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِه﴾ [الزمر:67] یہ آیت پڑھ لے تو اگر اس کو سفر کےدوران کوئی  تکلیف پہنچے تو قیامت کے دن میرا یعنی عبداللہ بن مسعود کا گریبان پکڑ لے، یہ روایت من گھڑٹ تو نہیں ؟ اگر واقعی اس قسم کی روایت ہے تو باحوالہ اور مکمل عبارت مع ترجمہ عنایت فرما دیں!

جواب

   

سوال میں مذکورہ آیت چند دیگر دعائیہ کلمات کے ساتھ بعض روایات میں منقول ہے، جن میں حادثات سے حفاظت کے لیے ایک دعا بتائی گئی ہے، اس کے الفاظ اس طرح ہیں : "أمان لأمتي من الغرق ..."الحدیث 
یہ حدیث تین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے:

۱۔ حضر تحسین بن علی رضی اللہ عنہما

۲۔  حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

۳۔ حضرتعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس طرح کی روایت کسی معتبر کتاب میں نہیں مل سکی۔ ذیل میں تینوں روایات اور ان کے راویوں سے متعلق محدثینِ کرام کا کلام اور ان روایات کا حکم درج کیا جاتاہے:

۱۔ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی روایت :

"803 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وُهَيْبٍ الْغَزِّيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ الْعَسْقَلَانِيُّ، ثنا سَيْفُ بْنُ الْحَجَّاجِ الْكُوفِيُّ، عَنْ يَحْيَی بْنِ الْعَلَاءِ الْبَجَلِيِّ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ كَرِيزٍ الْخُزَاعِيِّ، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَانٌ لِأُمَّتِي إِذَا رَكِبُوا الْفُلْكَ أَنْ يَقُولُوا: بِسْمِ اللَّهِ الْمَالِكِ الرَّحْمَنِ ﴿وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ﴾ ... إِلَی آخِرِ الْآيَةِ ﴿بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيمٌ﴾". الدعاء للطبراني (ص: 255).(تنبيه : تحرف سيف إلى ضيف في المطبوع)

" 500 - أَخْبَرَنَا أَبُو يَعْلَی، حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ، ثنا يَحْيَی بْنُ الْعَلَاءِ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الْعُقَيْلِيِّ، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَانٌ لِأُمَّتِي مِنَ الْغَرَقِ إِذَا رَكِبُوا فِي السَّفِينَةِ أَنْ يَقُولُوا: ﴿بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا، إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ ، ﴿وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ﴾ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ " . أخرجه أبو يعلى في "مسنده" (12/ 152/ 6781) ، وابن السني في عمل اليوم والليلة (ص: 449)".

اس روایت کی سند کی تحقیق :

اس حدیث میں چند علتیں ہیں جن کی وجہ سے حدیث معتبر نہیں ہوگی،وہ علتیں یہ ہیں:

۱۔ دونوں روایتوں میں یحیی بن علاء بجلی ہے ، جو غیرمعتبر اور متروک الروایت ہے (میزان الاعتدال4/397)۔

۲۔ پہلی روایت میں محمد بن ابی السری ، ضعیف ، کثیر الغلط راوی ہے (میزان الاعتدال4/23)۔

۳۔ دوسری روایت میں جبارہ بن مغلس(میزان 1/387)اورمروان بن سالم (میزان 4/90) دونوں ضعیف، ساقط الاعتبار ہیں ۔

 علماء حدیث کے اس روایت کے بارے میں اقوال :

قال ابن حجر في "نتائج الأفكار" (ج 2/ ق 160) : "وجُبارة ضعيفٌ، وشيخه أضعف منه، وشيخ شيخه كذلك بالاتفاق فيهما، وطلحة مجهول".

وقال الحافظ ابن حجر في "المطالب العالية" (3/ 237) : "فيه ضعف! ".

وقال الهيثمي في "مجمع الزوائد" (10/ 132) : "رواه أبو يعلى عن شيخه جبارة بن مغلس وهو ضعيف".

وقال البوصيري في "إتحاف الخيرة المهرة" (8/ 454): "مدار إسناديهما -يعني أبا يعلى والطبراني- على يحيى بن العلاء، وهو ضعيف".

وقال الألباني في "الكلم الطيب" (ص 97) : "سنده ضعيف جدًا، بل هو موضوع؛ في إسناده جبارة بن المغلس وهو ضعيف، عن يحيى بن العلاء عن مروان بن سالم، وهما متهمان بالوضع".

۲۔  حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت:

'804 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی الْأَيْلِيُّ الْمُفَسِّرُ، ثنا عُمَرُ بْنُ يَحْيَی الْأَيْلِيُّ، ثنا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ الْحَسَنِ الْهِلَالِيُّ، عَنْ نَهْشَلٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ مُزَاحِمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَمَانٌ لِأُمَّتِي مِنَ الْغَرَقِ إِذَا رَكِبُوا السُّفُنَ وَالْبَحْرَ أَنْ يَقُولُوا: بِسْمِ اللَّهِ الْمَالِكِ ﴿وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَی عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾،﴿بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيمٌ﴾. " الدعاء للطبراني (ص: 255)، وكذلك المعجم الكبير [12/ 97/ 12661]، والمعجم الأوسط للطبراني [6/ 184/ 6136]" .

حدیثِ ابن عباس کی سند کی تحقیق :

یہ سند بھیغیر معتبر ہے؛ اس لیے کہ اس میں مندرجہ ذیل علتیں ہیں :

۱۔ نہشل بن سعید متروک ، متہم بالکذب ہے (میزان4/275)۔

۲۔ ضحاک بن مزاحم جو ہیں ،انہوں نے ابن عباس کا زمانہ نہیں پایا ، لہذا سند میں انقطاع ہے ۔

۳۔ سوید بن سعید حدثانی فی نفسہ صدوق ہیں ، لیکن وہ  نابینا ہوگئےتھے ،بعض لوگ غلط روایات ان کو تلقین کرتے تھے ، اور وہ بیان کردیتے تھے، اس لیے محدثین کے یہاں متروک ہیں ۔ (میزان2/248)۔

اور ہیثمی نے مجمع الزوائد [10/ 132] میں فرمایا : اس سند میں نہشل ہے وہ متروک الروایہ ہے۔

الحاصل یہ حدیث ساقط الاعتبار ہے ۔

 ۳۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی روایت:

"40 - أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ الْخَطِيبُ، نا مُحَمَّدُ بْنُ ِ الْفَرُّخَانِ، نا أَبِي، نا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ، نا سَعِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَانٌ لأُمَّتِي مِنَ الْغَرَقِ إِذَا رَكِبُوا الْفُلْكَ، أَنْ يَقُولُوا: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ﴿وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ﴾، ﴿بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيمٌ﴾. " المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي (ص: 46)".

إسناد آخر : قال ابن قتيبة في "عيون الأخبار" (1/ 221) : حدثني محمد بن عبيد، عن حمزة بن وعلة، عن رجل من مراد يقال له أبوجعفر، عن محمد بن علي، عن علي ...الحديث" .

روایتِ علی بن ابی طالب کا حکم :

اس حدیث کی سند میں مُحمد بن الفرخان بن روزبہ ابُو الطّیب غیر معتبر ہے ، بلکہ حدیث گھڑنے والا ہے (لسان المیزان 7/439)  ۔اور اسحاق بن محمد ابن ابی فروہ متروک الروایت ہے (1/193)۔

دوسری سند میں حمزہ بن وعلہ اور اس کا شیخ ابوجعفر ، دونوں مجہول ہیں ، اور سند میں انقطاع بھی ہے ۔

خلاصۃ الحکم علی الحدیث :

 خلاصہ یہ ہوا کہ اس حدیث کی تینوں سندیں مؤثر علتوں سے خالی نہیں ہیں ؛اس لیے یہ حدیث قابلِ حجت نہیں ہوگی ـ

جو دعائیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں ان کو پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے، بجائے اس کے کہ جو نہایت ضعیف اسانید سےمنقول ہیں ، لوگوں کو بھی معتبر روایات سے منقول دعاؤں  کی ترغیب دینی چاہیے ، جن کی ذخیرہ احادیث میں کوئی کمی نہیں ہے  ۔

  تین  اہم  تنبیہات : 

۱۔ بعض واعظین مذکورہ بالا دعاء کو ہر سواری کے لیے پڑھنے کی عوام الناس کو پر زور تلقین کرتے ہیں ، جو صحیح نہیں ہے ، یہ دعا (علی فرض ثبوتہ )صرف دریائی سفر کرتے وقت کشتی میں بیٹھنے کے بعد پڑھنے کی ہے ، جیساکہ روایتوں میں واضح الفاظ کے ساتھ مذکور ہے (إِذَا رَكِبُوا السُّفُنَ وَالْبَحْرَ)،( مِنَ الْغَرَقِ) وغیرہ اور سورہ ہود والی آیت بھی حضرت نوح علیہ السلام نے کشتی میں بیٹھ کر پڑھی تھی ۔

لہذا یہ روایت حدیث کی جن کتابوں میں وارد ہے ، وہاں پر علماء حدیث نے اسی موقعہ پر پڑھنے کے مناسب  عنوان باندھا ہے ، چند تبویبات ملاحظہ فرمائیں :

الدعاء للطبراني (ص: 255) "بَابُ الْقَوْلِ عِنْدَ رُكُوبِ السَّفِينَةِ"

عمل اليوم والليلة لابن السني (ص: 449) "بَابُ مَا يَقُولُ إِذَا رَكِبَ سَفِينَةً"

إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة (6/ 479) "بَابُ مَا يُقَالُ عِنْدَ رُكُوبِ السفينة"

الأذكار للنووي (ص: 221) "بابُ ما يَقولُ إذا رَكِبَ سفينةً"

تخريج الكلم الطيب (ص: 145) "فصل في ركوب البحر"

حدائق الأنوار ومطالع الأسرار في سيرة النبي المختار (ص: 480) "دعاء ركوب السّفينة"

کسی بھی کتاب میں یہ نہیں ہے کہ  "یہ دعا ہر سواری کے لیے ہے" ، ورنہ علماءِ سلف کے یہاں معمول بہا ہوتی ، اور دعاؤں کی کتابوں میں اس بات کی تصریح ہوتی ۔

۲۔ بعض نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی نقل کیا کہ  انہوں نے فرمایا :دعا پڑھنے کی برکت سے ایکسیڈنٹ نہیں ہوگا، اور اگر ہوا تو قیامت کے دن میرا گریبان پکڑلینا۔

حضرت ابن عباس کی یہ بات تلاشِ بسیار کے بعد صرف علامہ مناوی کی (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر 2/182)میں ملی ہے ، مگر مناوی نے کوئی حوالہ نہیں دیا ، بلکہ کہا:(ونقل بعضهم عن ابن عباس : من قرأ الآيتين فعَطِب أو غَرِق فعَليَّ ذلك).حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت جن احادیث اور دعاؤں کی کتابوں میں منقول ہے ، وہاں بھی یہ بات مذکور نہیں ہے ۔

۳۔ ایک اور بات کا اضافہ کیا گیا ہے کہ حضرت ابن عباس نے کہا : میرے کان بہرے ہوجائیں ، آنکھیں اندھی ہوجائیں ، اگر میں نے یہ دعا حضور سے نہیں سنی ہو ۔ اس بات کا بھی کوئی معتبر مصدر نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم

   


فتوی نمبر : 143909200471

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں