بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ویڈیو کالنگ کے ذریعے نکاح منعقد ہونے سے متعلق ایک تحقیق کا جواب


سوال

بندے کا تعلق دار الافتاء جامعۃ الرشید سے ہے۔ گزشتہ دنوں یہاں ویڈیو کالنگ کے ذریعے نکاح کی بابت ایک استفتا آیا تھا جس کا جواب بندے نے تحریر کیا تھا۔ اساتذہ کرام کا حکم ہے کہ اس بارے میں دیگر دار الافتاؤں کی آراء بھی معلوم کر لی جائیں۔ سوال اور اس کا جواب نیچے مذکور ہے۔ ازراہِ کرم اسے ملاحظہ فرما کر اس کے بارے میں شرعی نکتہ نظر سے اپنی قیمتی رائے عنایت فرمائیے۔ جزاکم اللہ خیراً

سوال: ویڈیو کالنگ میں اگر دونوں فریق ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں اور کسی قسم کا کوئی اشتباہ نہ ہو تو نکاح منعقد ہوگا یا نہیں؟

الجواب: نکاح کے انعقاد کے لیے ضروری ہے کہ ایجاب و قبول ایک ہی مجلس میں اس طرح ہوں کہ فریقین ایک دوسرے کا کلام سن سکیں اور گواہ ایجاب اور قبول دونوں کو سن سکیں۔ ایجاب و قبول کی مجلس ایک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایجاب اور قبول کے درمیان کوئی ایسا فعل نہ پایا جائے جو اعراض اور انکار پر دلالت کرتا ہو۔ مکان کے اعتبار سے ایجاب و قبول کا ایک جگہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ فقہاء کرام نے خط کے ذریعے ایجاب کو درست قرار دیا ہے اور جس مجلس میں خط پڑھا جائے گا اس میں قبول کرنے کو معتبر سمجھا ہے۔ معروف ویڈیو کالنگ میں بھی چوں کہ خط کی طرح مجلس معنوی طور پر متحد ہوتی ہے اور گواہ ایجاب اور قبول دونوں کا مشاہدہ و سماع کرسکتے ہیں؛ لہذا اس کے ذریعے نکاح منعقد ہو جائے گا۔ البتہ اگر کوئی ایسی صورت پائی جائے جس میں جانبین یا گواہ دونوں جانب سے ایجاب اور قبول کو سن نہ سکیں تو اس صورت میں نکاح بھی نہیں ہوگا۔

قال الحصكفي ؒ: "ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين."

قال ابن عابدين ؒ: "(قوله: لو حاضرين) احترز به عن كتابة الغائب، لما في البحر عن المحيط الفرق بين الكتاب والخطاب أن في الخطاب لو قال: قبلت في مجلس آخر لم يجز وفي الكتاب يجوز؛ لأن الكلام كما وجد تلاشى فلم يتصل الإيجاب بالقبول في مجلس آخر فأما الكتاب فقائم في مجلس آخر، وقراءته بمنزلة خطاب الحاضر فاتصل الإيجاب بالقبول فصح. اهـ." (الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/14، دار الفكر)

قال الحصكفي ؒ: "(وشرط سماع كل من العاقدين لفظ الآخر) ليتحقق رضاهما."

علق عليه ابن عابدين ؒ في حاشيته: "(قوله: سماع كل) أي ولو حكما كالكتاب إلى غائبة؛ لأن قراءته قائمة مقام الخطاب كما مر." (الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/21، دار الفكر)

قال الحصكفي ؒ:" (و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين)۔۔۔."

قال ابن عابدينؒ: " قال في الفتح: ومن اشترط السماع ما قدمناه في التزوج بالكتاب من أنه لا بد من سماع الشهود ما في الكتاب المشتمل على الخطبة بأن تقرأه المرأة عليهم أو سماعهم العبارة عنه بأن تقول إن فلانا كتب إلي يخطبني ثم تشهدهم أنها زوجته نفسها. اهـ." (الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/23، دار الفكر) واللہ سبحانہ وتعالی اعلم محمد اویس پراچہ دار الافتاء، جامعۃ الرشید

جواب

ویڈیو کالنگ کے ذریعے نکاح کے منعقد ہونے سے متعلق آپ کے مذکورہ جواب پر غور کیا گیا، دارالافتاء میں مفتیانِ کرام سے بھی اس بابت مشورہ کیا گیا، غور وخوض اور مشورے کے بعد مذکورہ تحقیق سے اتفاق نہیں ہوسکا،  جس کی تفصیل اور مذکورہ مسئلہ کا شرعی حکم مندرجہ ذیل ہے:

شریعت نے نکاح کے انعقاد کے لیے ایک ضابطہ رکھا ہے، اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ شرعاً نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ایجاب و قبول کی مجلس ایک ہو اور اس میں جانبین میں سے دونوں کا بنفسِ نفیس یاان کے وکیل کا موجود ہونا شرط اورضروری ہے، نیز مجلسِ نکاح میں دو گواہوں کا ایک ساتھ موجود ہونا اور دونوں گواہوں کا اسی مجلس میں نکاح کے ایجاب و قبول کے الفاظ کا سننا بھی شرط ہے۔ اور اگر جانبین میں سے کوئی ایک مجلس نکاح میں موجود نہ ہو تو اس صورت میں اپنا وکیل مقرر کرے ، پھر یہ وکیل اپنے مؤکل کی طرف سے اس کا نام مع ولدیت لے کر مجلس نکاح میں ایجاب وقبول کریں، تو نکاح منعقد ہوجائے گا۔ پھر نکاح کی جس مجلس میں فریقین بنفسِ نفیس شریک ہوں تو وہ مجلس حقیقتاً مجلس کے حکم میں ہے اور جس مجلس میں فریقین میں سے ایک یا دونوں کی جانب سے وکیل ہوں تو وہ حکماً مجلس کے حکم میں ہے۔

موجودہ دور میں ویڈیو کالنگ کے ذریعے نکاح کے انعقاد کی جو صورت اختیار کی جاتی ہے اس میں مجلس کی شرط مفقود ہوتی ہے؛ کیوں کہ شرعاً نہ تو یہ صورت حقیقتاً مجلس کے حکم میں ہے اور نہ ہی حکماً، کیوں کہ وہ ایک مجلس ہی نہیں ہوتی، بلکہ فریقین دو مختلف جگہوں پر ہوتے ہیں، جب کہ ایجاب و قبول کے لیے عاقدین کی مجلس ایک ہونا ضروری ہے۔ لہذا ویڈیو کالنگ کے ذریعے نکاح منعقد کرنا درست نہیں ہے۔

ویڈیو کالنگ کے ذریعے نکاح کے جواز  کو ’’خط کے ذریعے نکاح کے جواز‘‘ سے استدلال کرنا درست نہیں؛ کیوں کہ خط کے ذریعے نکاح کا جو پیغام فریقِ ثانی کو بھیجا جاتا ہے اور یہ خط جس مجلس میں کھول کر پڑھا جاتاہے وہ نکاح کی مجلس ہوتی ہے، اگر فریقِ ثانی گواہوں کی موجودگی میں اس پیغام کو پڑھ کر قبول کرلیتا ہے تو نکاح منعقد ہوجاتا ہے اور اگر انکار کرتا ہےیا اس مجلس سے الگ ہوجاتا ہے تو یہ پیغام کالعدم ہوجاتا ہے، اور نکاح منعقد نہیں ہوتا۔

اور ویڈیو کالنگ میں پیغام بھیجا نہیں جاتا ہے، اور فریقِ اول کے پاس جو گواہ ہیں وہ گواہ دوسرے فریق کے پاس نہیں ہوتے، بلکہ وہ الگ الگ ہوتے ہیں، اس لیے دونوں گواہوں اور ایجاب و قبول کی مجلس ایک نہیں ہوتی، حال آں کہ مجلس ایک ہونا ضروری ہے، اس لیے ویڈیو کالنگ کو خط پر محمول کرکے نکاح کو درست قرار دینا صحیح نہیں ہے۔

وفی الدر المختار مع الرد المحتار:

"ومن شرائط الإیجاب والقبول: اتحاد المجلس لوحاضرین...

(قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ینعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر، بطل الإیجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان، فجعل المجلس جامعاً تیسیراً".(کتاب النکاح: ۳/ ۱۴، ط: سیعد)

وفی الہندیۃ :

"أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد، حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد، حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان، وهو غائب فبلغه الخبر، فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة، فبلغها الخبر، فقالت: زوجت نفسي منه، لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى. ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً، فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز؛ لاتحاد المجلس من حيث المعنى، وإن لم يسمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب لا يجوز عندهما".(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه: ۱/ ۲۶۹، ط: دار الفكر)

وفی النہر الفائق :

"واعلم أن للإيجاب والقبول شرائط: اتحاد المجلس، فلو اختلف لم ينعقد، بأن أوجب أحدهما فقام الآخر قبل القبول واشتغل بعمل آخر". (كتاب النکاح : ۲/ ۱۷۸، ط: دار الکتب العلمیة)

وفی البحر الرائق :

" ولم يذكر المصنف شرائط الإيجاب والقبول، فمنها: اتحاد المجلس إذا كان الشخصان حاضرين، فلو اختلف المجلس لم ينعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر بطل الإيجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان فجعل المجلس جامعاً تيسيراً". (كتاب النكاح: ۳/ ۸۹، ط: دار المعرفة)

وفی بدائع الصنائع:

" ... وأما الذي يرجع إلى مكان العقد فهو اتحاد المجلس إذا كان العاقدان حاضرين، وهو أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد، حتى لو اختلف المجلس لا ينعقد النكاح، بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد؛ لأن انعقاده عبارة عن ارتباط أحد الشطرين بالآخر، فكان القياس وجودهما في مكان واحد، إلا أن اعتبار ذلك يؤدي إلى سد باب العقود، فجعل المجلس جامعاً للشطرين حكماً مع تفرقهما حقيقةً؛ للضرورة، والضرورة تندفع عند اتحاد المجلس، فإذا اختلف تفرق الشطرين  حقيقةً وحكماً فلا ينتظم الركن". (  كتاب النكاح،   فصل وأما شرائط الركن فأنواع: ۲/ ۲۳۲، ط: دار الكتاب العربي)

وفي الموسوعة الفقهية الكويتية :

"ونوع يرجع إلى مكان العقد وهو اتحاد المجلس إذا كان العاقدان حاضرين، وهو أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد، حتى لو اختلف المجلس لا ينعقد النكاح، بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول، أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد؛ لأن انعقاده عبارة عن ارتباط أحد الشرطين بالآخر". (نكاح، شروط النكاح :  ۴۱/ ۳۰۳، ط: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

وفی الدر المختار مع الرد المحتار:

"(ویتولی طرفي النکاح واحد) بإیجاب یقوم مقام القبول في خمس صور: کأن کان ولیاً، أو وکیلاً من الجانبین ...الخ

قوله:  (ولیا أو وکیلاً من الجانبین )کزوجت ابني بنت أخي، أو زوجت مؤکلي فلاناً مؤکلتي فلانة، قال ط: یکفي شاهدان علی وکالته ووکالتهما وعلی العقد؛ لأن الشاهد یتحمل الشهادات العدیدة". (کتاب النکاح، باب الکفاءة، مطلب في الوکیل والفضولي في النکاح: ۹۶،۹۷،ط: سعید)

وفي الهندية:

"ولو قالت: إن فلاناً كتب إلي يخطبني فاشهدوا أني قد زوجت نفسي منه، صح النكاح؛ لأن الشهود سمعوا كلامهما بإيجاب العقد وسمعوا كلام الخاطب بإسماعها إياهم، هكذا في الذخيرة. ولو كتب الإيجاب والقبول لاينعقد". (كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه: ۱/ ۲۶۹، ط: دار الفكر)

وفي المبسوط السرخسي:

"ولو قالت بين يدي الشهود: زوجت نفسي منه لا ينعقد النكاح أيضاً؛ لأن سماع الشهود كلام المتعاقدين شرط لجواز النكاح، وإنما سمعوا كلامها هنا لا كلامه، لو كانت حين بلغها الكتاب قرأته على الشهود وقالت: إن فلاناً كتب إلي يخطبني فاشهدوا أني قد زوجت نفسي منه فهذا صحيح؛ لأنهم سمعوا كلام الخاطب بإسماعها إياهم إما بقراءة الكتاب أو العبارة عنه وسمعوا كلامهما حيث أوجبت العقد بين أيديهم فلهذا تم النكاح".

(كتاب النكاح، باب الوكالة في النكاح: ۵/ ۱۶، دار المعرفة – بيروت)

وفیه أیضاً:

"وأن الخطبة بالكتاب تصح، وهذا لأن الكتاب ممن نأى كالخطاب ممن دنا فإن الكتاب له حروف ومفهوم يؤدي عن معنى معلوم فهو بمنزلة الخطاب من الحاضر". (كتاب النكاح، باب الوكالة في النكاح: ۵/ ۱۶، دار المعرفة – بيروت)

وفي الرد:

"قال: ينعقد النكاح بالكتاب كما ينعقد بالخطاب. وصورته: أن يكتب إليها يخطبها فإذا بلغها الكتاب أحضرت الشهود وقرأته عليهم وقالت: زوجت نفسي منه، أو تقول: إن فلاناً كتب إلي يخطبني فاشهدوا أني زوجت نفسي منه، أما لو لم تقل بحضرتهم سوى زوجت نفسي من فلان لا ينعقد؛ لأن سماع الشطرين شرط صحة النكاح، وبإسماعهم الكتاب أو التعبير عنه منها قد سمعوا الشطرين". (كتاب النكاح: ۳/ ۱۲، ط: سعید)

وفي فتح القدیر:

"الرابع : ينعقد النكاح بالكتاب كما ينعقد بالخطاب، وصورته: أن يكتب إليها يخطبها، فإذا بلغها الكتاب أحضرت الشهود وقرأته عليهم، وقالت: زوجت نفسي منه. أو تقول: إن فلاناً قد كتب إلي يخطبني فاشهدوا أني زوجت نفسي منه. أما لو لم تقل بحضرتهم سوى زوجت نفسي من فلان لا ينعقد؛ لأن سماع الشطرين شرط صحة النكاح .

(کتاب النکاح: ۳/ ۱۰۹، ط: رشیدیه)

وفی  الموسوعة  الفقهية  الكويتية:

"وأما الغائب فقد اختلف الفقهاء في انعقاد النكاح بالكتابة إليه.

فعند الحنفية ينعقد النكاح بالكتاب كما ينعقد بالخطاب، وصورته: أن يكتب إليها يخطبها، فإذا بلغها الكتاب أحضرت الشهود وقرأته عليهم وقالت : زوجت نفسي منه أو تقول : إن فلاناً كتب إلي يخطبني فاشهدوا أني زوجت نفسي منه، أما لو لم تقل بحضرتهم سوى زوجت نفسي من فلان لا ينعقد؛ لأن سماع الشطرين شرط صحة النكاح، وبإسماعهم الكتاب أو التعبير عنه منها قد سمعوا الشطرين". (نكاح، أركان النكاح، أولاً: الصيغة في النكاح، ما يقوم مقام اللفظ في انعقاد النكاح، منها : ب - الكتابة : ۴۱/ ۲۴۱، ط: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية – الكويت)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"خط کے ذریعہ نکاح: زید نے اپنی لڑکی کو بکر کو دیا اور اس سے یہ کہا کہ میں نے اپنی لڑکی تم کو دی، اس کے بعد زید نے بکر کو خط لکھا اور تین آدمیوں کے دستخط کرائے، تو خط پر نکاح جائزہوا یا نہیں ؟

(الجواب) اگر زیدنے بکر کو خط اس مضمون کا بھیج دیا کہ میں نے اپنی دختر کا نکاح تم سے کیا اور مکتوب الیہ نے اس کے مضمون کو حاضرین کو سنایا اور قبول کیا تو نکاح  منعقد ہوگیا" ۔ (کتاب النکاح: ۷/ ۸۸، ط: دار الاشاعت)

وفیہ ایضاً:

"نکاح خط و کتابت کے ذریعہ: مثلاً ایک عورت نے ایک شخص کو لکھا کہ میں آپ سے نکاح کرنا چاہتی ہوں اتنے مہر پر، آپ منظور کریں، اور ادھر سے اس شخص  نے اس کے جواب میں لکھا کہ مجھے منظور ہے اور وہ شخص دو شخصوں کے سامنے پڑھ کر اور اس کا جواب بھی ان کو سنا کر لکھ دیا تو کیا یہ نکاح ہوگیا، مگر اس عورت نے خفیہ بلا دو شرعی گواہ کے خط لکھا ہو تو کیا یہ نکاح ہوجاوے گا  یا ادھر سے بھی دو گواہ شرعی ہونے کی ضرورت ہوگی، اور ا ن دونوں خطوں پر دونوں فریق کے گواہان کے دستخط بھی ہونے چاہییں یا نہیں؟

(الجواب) شامی میں خط پر جوازِ نکاح کی یہ صورت لکھی ہے کہ مثلاً مرد عورت کو خط لکھے کہ میں تجھ سے نکاح کرتا ہوں اور عورت دو گواہوں کو بلاکر ان کے سامنے اس خط کو پڑھے اور کہہ دے کہ میں نے اپنا نکاح اس سے کیا الخ، اس صورت کے موافق یہ بھی جائز ہے کہ عورت مرد کو خط لکھے اور مرد دو گواہوں کے سامنے اس کا خط پڑھے اور یہ کہہ دے کہ میں نے اس عورت سے نکاح کیا، غرض یہ کہ اگر دو گواہوں کے سامنے شوہر نے اس خط کوپڑھ دیا اور قبول کرلیا تو نکاح ہوگیا۔ (کتاب النکاح: ۷/ ۸۸، ط: دار الاشاعت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201276

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں