بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل کے لیے کمیشن رکھنے کا حکم


سوال

میں جس دفتر میں کام کرتا ہوں، وہاں کچھ باہر سے کارڈ بنواۓ جاتے ہیں دفتر کے ملازمین کے لیے،اور یہ کام جو شخص کرتا ہےاسے مہنگے کارڈ ملتے ہیں، اب اگر میں اس سے سستے کارڈ بنوانے کی کوئی  جگہ دیکھ کر وہاں سے کارڈ بنواؤں اور درمیان میں اپنے بھی کچھ پیسے رکھوں اورمیرے پیسے رکھنے کے بعد بھی دفتر میں وہ کارڈ پہلے کی نسبت سستا پڑے تو کیا میرا درمیان میں پیسے رکھنا جائز ہے؟

 دوسری صورت یہ کہ میں کارڈ بنانے والے کو اس کی اجرت اپنی جیب سے ادا کردوں بعد میں دفتر سے ملنے والے پیسے جو کہ کارڈ بنانے والے کی اجرت سے زیادہ ہوں وہ میں خود رکھ لوں کیا کوئی بھی گنجائش ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ مذکورہ  ادارے کے ملازم ہیں اور اس حیثیت سے جب آپ ادارے کی طرف سے کارڈ بنوائیں گے تو شرعاً آپ کی حیثیت وکیل کی ہو گی اور وکیل کے لیے موکل (آپ کا ادارہ) کو بتائے بغیر  درمیان میں اپنا کمیشن رکھنا جائز نہیں، لہذا  سوال میں ذکر کردہ دونوں صورتوں میں آپ درمیان میں اپنا کمیشن نہیں رکھ سکتے، کیوں کہ کمیشن حلال ہونے کے لیے باقاعدہ کمیشن کا متعین کرنا ضروری ہوتا ہے اور یہاں ایسا کوئی معاملہ نہیں، بلکہ آپ کمپنی کے ملازم ہیں اور آپ کمپنی سے اپنے کام کی تن خواہ وصول کر لیتے ہیں۔

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ...لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة". (الکتاب الحادی عشر الوکالة، الباب الثالث،الفصل االاول،المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201434

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں