اگر کوئی شخص کسی غریب کو قربانی کے لیے مثلاً دس ہزار روپے دیتا ہے کہ اس سے میری طرف سے قربانی کرو، پھر وہ جانور خریدتے وقت کچھ پیسے رہ گئے یا بارہ ہزار سے کم جانور نہ ملتا ہو تو وہ غریب اپنی طرف سے کچھ دیتا ہے تو اب مسئلہ ذیل میں دو باتیں پوچھنی ہیں:
1: بچے ہوئے پیسو ں کو کیا کرے، واپس کرے یا کسی کو صدقہ کرے؟
2: دوہزار اپنی طرف سے دے کر کیا قربانی کرنے والے کی قربانی صحیح ہے؟ دلیل سے راہ نمائی فرمائیں.
نوٹ: دونوں صورتوں میں قربانی کرنے والا کا اتا پتا معلوم نہیں۔
۱۔ اگر جانور خریدنے کے بعد رقم بچ گئی تو مالک کو واپس کرنا لازم ہے۔اگر مالک نہ ملے تو صدقہ کردے ۔
۲۔ اگر مزید رقم لگانی پڑگئی تو وہ غریب کی طرف سے احسان ہے اور مالک کی قربانی درست ہے۔
’’ درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام ‘‘ :
"المال الذي قبضہ الوکیل والرسول من جہۃ الوکالۃ ومن جہۃ الرسالۃ أمانۃ في یدہما "۔ (۲/۲۳۶ ، المادۃ : ۱۴۶۳)
"المال الذي قبضہ الوکیل بالبیع والشراء وإیفاء الدین واستیفائہ وقبض العین من جہۃ الوکالۃ في حکم الودیعۃ في یدہ" ۔
(۳/۵۶۱ ، المادۃ : ۱۴۶۳ ، أحکام الودیعۃ العمومیۃ ، دار الجیل بیروت ، شرح المجلۃ لسلیم رستم باز :ص/۷۸۴ ، المادۃ : ۱۴۶۳ ، دار احیاء التراث العربي بیروت)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144001200080
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن