بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وضو کے بغیر یا غسل جنابت کی حالت میں نماز پڑھنے سے کفر کا حکم


سوال

 ہمارے گاؤں کا ایک عالم بتا رہا تھا کہ بغیر وضو کے یا  غسل (واجب ہونے کی حالت)میں سجدہ کرنے سے آدمی اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، اور اگر شادی شدہ ہوتو بیوی کو بھی طلاق ہو جاتی ہے، تو کیا بغیر وضو کے یا غسل(واجب ہونے کی حالت) میں سجدہ کرنے سے آدمی اسلام خارج ہو جاتا اور اگر شادی شدہ ہوتو کیا بیوی کو طلاق ہو  جاتی ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص حالتِ جنابت (یعنی غسل واجب ہونے کی حالت میں) یا وضو کے بغیر نماز پڑھنے کو جائز اور درست سمجھتا ہے، یا دین یا نماز کے استخفاف، حقارت اور اہانت کی غرض سے وضو یا غسل واجب ہونے کی صورت میں غسل کے بغیر نماز پڑھتا ہے یا سجدہ کرتا ہے تو  ایسا شخص حکمِ شرعی کی اہانت، استخفاف اور  فرض کے انکار کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اس پر تجدیدِ ایمان اور شادہ شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِ نکاح کرنا بھی لازم ہوگا (مذکورہ عالم نے جو مسئلہ بتایا ہے وہ اس صورت سے متعلق ہے)۔

لیکن اگر کوئی شخص وضو یا غسل جنابت کیے بغیر  نماز پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتا، اور نہ ہی شریعت کی اہانت کی غرض سے ایسا کرتا ہے، بلکہ لاعلمی میں یا غلطی سے یا سستی ، کاہلی وغیرہ کی وجہ سے وضو یا غسل جنابت کیے بغیر نماز پڑھتا ہے تو  اس سے یہ شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا، اگر چہ سستی اور کاہلی وغیرہ کی وجہ سے ایسا کرنا  گناہ ہے، جس پر توبہ واستغفار کرنا لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وبه ظهر أن تعمد الصلاة بلا طهر غير مكفر كصلاته لغير القبلة أو مع ثوب نجس، وهو ظاهر المذهب، كما في الخانية.

(قوله: غير مكفر) أشار به إلى الرد على بعض المشايخ، حيث قال: المختار أنه يكفر بالصلاة بغير طهارة لا بالصلاة بالثوب النجس وإلى غير القبلة لجواز الأخيرتين حالة العذر بخلاف الأولى فإنه لايؤتى بها بحال فيكفر. قال الصدر الشهيد: وبه نأخذ، ذكره في الخلاصة والذخيرة، وبحث فيه في الحلية بوجهين: أحدهما ما أشار إليه الشارح. ثانيهما أن الجواز بعذر لايؤثر في عدم الإكفار بلا عذر؛ لأن الموجب للإكفار في هذه المسائل هو الاستهانة، فحيث ثبتت الاستهانة في الكل تساوى الكل في الإكفار، وحيث انتفت منها تساوت في عدمه، وذلك لأنه ليس حكم الفرض لزوم الكفر بتركه، وإلا كان كل تارك لفرض كافراً، وإنما حكمه لزوم الكفر بجحده بلا شبهة دارئة اهـ ملخصاً: أي والاستخفاف في حكم الجحود.

(قوله: كما في الخانية) حيث قال بعد ذكره الخلاف في مسألة الصلاة بلا طهارة: وأن الإكفار رواية النوادر. وفي ظاهر الرواية: لايكون كفراً، وإنما اختلفوا إذا صلى لا على وجه الاستخفاف بالدين، فإن كان وجه الاستخفاف ينبغي أن يكون كفراً عند الكل. اهـ.

أقول: وهذا مؤيد لما بحثه في الحلية لكن بعد اعتبار كونه مستخفا ومستهينا بالدين كما علمت من كلام الخانية، وهو بمعنى الاستهزاء والسخرية به، أما لو كان بمعنى عد ذلك الفعل خفيفا وهينا من غير استهزاء ولا سخرية، بل لمجرد الكسل أو الجهل فينبغي أن لايكون كفرا عند الكل، تأمل". (1/81، کتاب الطہارۃ، ط:سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200532

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں