میراث ملنے سے پہلے دست بردار ہونا کیسا ہے؟
میراث اور ترکہ میں جائیداد کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا اپنے شرعی حصہ سے بلا عوض دست بردار ہوجانا شرعاً معتبر نہیں ہے، البتہ ترکہ تقسیم ہوجائےتو پھر ہر ایک وارث اپنے حصے پر قبضہ کرنے کے بعد اپنا حصہ کسی کو دینا چاہے یا کسی کے حق میں دست بردار ہوجائے تو یہ شرعاً جائز اور معتبر ہے۔ اسی طرح کوئی وارث ترکہ میں سے کوئی چیز لے کر (خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو) صلح کرلے اور ترکہ میں سے اپنے باقی حصہ سے دست بردار ہوجائے تو یہ بھی درست ہے، اسے اصطلاح میں " تخارج" کہتے ہیں۔
" تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار" میں ہے:
" الإرث جبري لَا يسْقط بالإسقاط".(ج: 7/ص:505 / کتاب الدعوی، ط :سعید)
"الأشباہ والنظائر" لابن نجیم میں ہے:
"لَوْ قَالَ الْوَارِثُ: تَرَكْتُ حَقِّي لَمْ يَبْطُلْ حَقُّهُ؛ إذْ الْمِلْكُ لَا يَبْطُلُ بِالتَّرْك". (ص؛309/ما یقبل الاسقاط من الحقوق وما لا یقبلہ/ط:قدیمی)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909202182
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن