بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کا اپنی اولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کرنا


سوال

میں جاننا چاہتا ہوں کہ میری والدہ اپنی زندگی میں اپنے ذاتی مکان کو بیچ کراپنی اولاد کو حصہ دینا چاہتی ہیں۔ ہم دو بھائی اورایک بہن ہیں۔ تقسیم کا تناسب کیا ہوگا؟  اور کیا اس میں والدین کا بھی حصہ ہوگا ؟

جواب

زندگی میں ہی جائیداد واموال کی تقسیم شرعاً لازم نہیں اورنہ ہی  اولاد میں سے کسی کو والدین سے تقسیم کے مطالبہ کا  شرعاًحق ہے ۔  تاہم اگرکوئی شخص  اپنی جائیداد اپنی مرضی و خوشی  سے اپنی زندگی میں  تقسیم کرنا چاہتا ہے تویہ تقسیم درست ہے، نیزیہ تقسیم وراثت نہیں، بلکہ ہبہ (گفٹ) کہلائے گی۔ اور شرعی حکم یہ ہے کہ اس صورت میں بیٹوں اوربیٹیوں کوبرابرکاحصہ دیاجائے،بلاکسی شرعی سبب کے کمی بیشی نہ کی جائے۔

لہذا آپ کی والدہ  اپنی کل جائیداد میں سے جتنا چاہیں اپنی ضرورت کے لیے اور اپنے شوہر کے لیے  رکھ لیں۔ بقیہ جائیداد کو اپنی اولاد میں برابر   تقسیم کردیں،یعنی  جتنا حصہ ایک بیٹے کو دیں اتنا ہی حصہ  بیٹی کوبھی  دیں، کسی کو کم یا زیادہ دینا درست نہیں۔البتہ اگر اولاد میں سے کوئی زیادہ فرماں بردار، خدمت گزار ہو، یا زیادہ دین دار  ہو  یامالی لحاظ سے وسروں کی بہ نسبت کم زور  حیثیت رکھتاہوتو اس کو کچھ زیادہ بھی دے سکتے ہیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201439

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں