بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نوافل میں قعدہ اولی کاحکم


سوال

چار رکعت نفل نماز کی نیت کی، قعدہ اولیٰ نہیں کیا اور نہ سجدہ سہو کیا،  اس کی نمازکے متعلق حکم بیان کریں.نیز دو رکعت کے بعد(نفلوں میں) قعدہ فرض ہے یا واجب؟

جواب

مذکورہ بالا صورت میں آخر میں سجدہ سہو کرلینا چاہیے تھا، اس صورت میں چاروں رکعت درست ہو جاتیں، لیکن سجدہ سہو نہ کرنے کی وجہ سے پہلی دو رکعت فاسد ہوگئیں، باقی اگلی دو رکعت درست ہوگئی ؛ اس لیے کہ نوافل میں ہر دو رکعت علیحدہ شمار ہوتی ہیں؛ اس لیے اگلی دو رکعتوں کی صحت پر اثر نہیں پڑے گا، وہ درست ہیں، باقی اگرچہ اس قاعدہ  کی رو سے قعدہ اولی کو فرض کہنا چاہیے تھا،لیکن قعدہ کے اعتبار سے فقہاء نے اس کو ایک ہی نماز شمار کیا ہے؛ اس لیے صحیح قول کے مطابق قعدہ اولی  فرض نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 458):

"(وضم) أقصر (سورة) كالكوثر أو ما قام مقامها، هو ثلاث آيات قصار ... (في الأوليين من الفرض) وهل يكره في الأخريين؟ المختار لا (و) في (جميع) ركعات (النفل)؛ لأن كل شفع منه صلاة.

 (قوله: لأن كل شفع منه صلاة) كأنه والله أعلم لتمكنه من الخروج على رأس الركعتين، فإذا قام إلى شفع آخر كان بانياً صلاةً على تحريمة صلاة، ومن ثمة صرحوا بأنه لونوى أربعاً لايجب عليه بتحريمتها سوى الركعتين في المشهور عن أصحابنا، وأن القيام إلى الثالثة بمنزلة تحريمة مبتدأة، حتى أن فساد الشفع الثاني لايوجب فساد الشفع الأول، وقالوا: يستحب الاستفتاح في الثالثة والتعوذ، وتمامه في الحلية، وسيأتي أيضاً في باب الوتر والنوافل. قال ح: ولا ينافيه عدم افتراض القعدة الأولى فيه الذي هو الصحيح؛ لأن الكل صلاة واحدة بالنسبة إلى القعدة، كما في البحر عند قول الكنز: فرضها التحريمة".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200303

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں