بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں لقمہ کی وجہ سے سکوت کا حکم


سوال

امام کو لقمہ دینے میں اور امام اسے سمجھے اتنی دیر میں ایک رکن کی ادائیگی کے برابر امام خاموش رہے تو کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مقتدی کے لقمہ دینے کے بعد امام ایک رکن کی مقدار خاموش رہا تو سجدہ سہو واجب ہوگا، ورنہ نہیں۔مقتدی کے لقمہ دینے میں جو وقت لگتا ہے، اس کا اعتبار نہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 93):

"أداء ركن ولم يشتغل حالة الشك بقراءة ولا تسبيح) ذكره في الذخيرة (وجب عليه سجود السهو في) جميع (صور الشك) سواء عمل بالتحري أو بنى على الأقل، فتح ؛ لتأخير الركن، لكن في السراج أنه يسجد للسهو في أخذ الأقل مطلقاً، وفي غلبة الظن إن تفكر قدر ركن.

(و) اعلم أنه (إذا شغله ذلك) الشك فتفكر (قدر... الخ

(قوله واعلم إلخ) قال في المنية وشرحها الصغير: ثم الأصل في التفكر أنه إن منعه عن أداء ركن كقراءة آية أو ثلاث أو ركوع أو سجود أو عن أداء واجب كالقعود يلزمه السهو لاستلزام ذلك ترك الواجب وهو الإتيان بالركن أو الواجب في محله، وإن لم يمنعه عن شيء من ذلك بأن كان يؤدي الأركان ويتفكر لايلزمه السهو".

فتاوی محمودیۃ :

’’اگر یاد نہیں آیا کہ کیا پڑھے اور تین تسبیح کی مقدار خاموش سوچتا رہے سجدہ سہو لازم ہوگا‘‘۔ (ج نمبر ۷ ص نمبر ۳۵)

رد المحتار علي الدر المختار:

"(وفتحه على غير إمامه) إلا إذا أراد التلاوة وكذا الأخذ، إلا إذا تذكر فتلا قبل تمام الفتح (بخلاف فتحه على إمامه) فإنه لايفسد (مطلقاً) لفاتح وآخذ بكل حال.

(قوله: مطلقاً) فسره بما بعده (قوله: بكل حال) أي سواء قرأ الإمام قدر ما تجوز به الصلاة أم لا، انتقل إلى آية أخرى أم لا، تكرر الفتح أم لا، هو الأصح، نهر". (کتاب الصلاۃ باب مایفسد بہ الصلاۃ ج نمبر ۱ ص نمبر ۶۲۲ ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں