بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نمازِ جنازہ میں تین تکبیرات کہی گئیں، اور اعادہ کے بغیر تدفین کردی گئی، اس صورت میں نمازِ جنازہ کے اعادہ کا حکم


سوال

اگر امام نمازِ جنازہ میں تین تکبیر کہہ کر سلام پھیر دے، مقتدی حضرات کو بھی پتا نہ چلے،  بعد میں میت کے دفن کرنے کے بعد پتا چلے یا کوئی بتائے تو پھر کیا حکم ہو گا؟

جواب

نمازِ جنازہ میں چار تکبیریں کہنا فرض ہے، اور یہ چار تکبیریں چار رکعات کے قائم مقام ہیں، لہٰذا اگر نمازِ جنازہ میں امام صاحب نے چار کے بجائے تین تکبیریں کہہ کر سلام پھیر دیا تو نمازِ جنازہ نہیں ہوئی، اس نمازِ جنازہ کا اعادہ لازم تھا، اگر دفن کرنے کے بعد یاد آیا کہ تین تکبیرات کہی گئی تھیں تو  قبر پر اس وقت تک جنازہ کی نماز پڑھنا لازم ہے جب تک میت کے سڑنے اور پھٹنے کا غالب گمان نہ ہو، اور میت کے گلنے سڑنے کی مدت حتمی طور پر متعین نہیں ہے، موسم کے گرم و سرد ہونے، میت کی جسامت  اور زمین کی ساخت کے اعتبار سے مختلف علاقوں میں اس کی مدت مختلف ہوسکتی ہے، بعض فقہاء نے اس کی تحدید تین دن  سے کی ہے، یعنی تین دن بعد میت گلنا اور سڑنا شروع ہوتی ہے، لہٰذا دفن کے وقت سے تین دن بعد تک بھی اگر قبر پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی جاسکی تو پھر اس کے بعد نہیں پڑھنی چاہیے۔

نوٹ: یہ ساری تفصیل اس صورت میں ہے جب کہ کسی شخص کے  بتانے پر امام صاحب کو یا دیگر مقتدیوں کو بھی یاد آجائے کہ واقعی تین تکبیرات کے بعد سلام پھیر دیا گیا تھا، لیکن اگر امام صاحب اور دیگر مقتدیوں کو یقین ہو کہ چار تکبیرات کہنے کے بعد ہی سلام پھیرا گیا تھا  اور صرف ایک ہی مقتدی میت کی تدفین کے بعد اصرار کر رہا ہو کہ صرف تین تکبیرات کہی گئی تھیں تو اس کی بات کی وجہ سے وہم میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 209):

"(وركنها) شيئان (التكبيرات) الأربع، فالأولى ركن أيضاً لا شرط، فلذا لم يجز بناء أخرى عليها (والقيام) فلم تجز قاعدا بلا عذر".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 224):

"(وإن دفن) وأهيل عليه التراب (بغير صلاة) أو بها بلا غسل أو ممن لا ولاية له (صلي على قبره) استحساناً (ما لم يغلب على الظن تفسخه) من غير تقدير، هو الأصح. وظاهره أنه لو شك في تفسخه صلي عليه، لكن في النهر عن محمد لا كأنه تقديماً للمانع.

 (قوله: صلي على قبره) أي افتراضاً في الأوليين وجوازاً في الثالثة؛ لأنها لحق الولي أفاده ح. أقول: وليس هذا من استعمال المشترك في معنييه كما وهم؛ لأن حقيقة الصلاة في المسائل الثلاث واحدة، وإنما الاختلاف في الوصف وهو الحكم، فهو كإطلاق الإنسان على ما يشمل الأبيض والأسود فافهم (قوله: هو الأصح) لأنه يختلف باختلاف الأوقات حراً وبرداً والميت سمناً وهزالاً والأمكنة، بحر، وقيل: يقدر بثلاثة أيام، وقيل: عشرة، وقيل: شهر ط عن الحموي".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200873

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں