بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میں اللہ پر یقین نہیں رکھتا خدا میری مدد ہی نہیں کرتا نشہ کی حالت میں کہنے والے شخص کا حکم


سوال

اگر کسی شادی شدہ شخص نے نشہ کی حالت میں یہ کہا : ’’میں اللہ پر یقین نہیں رکھتا، خدا میری مدد ہی نہیں کرتا‘‘۔ کیا وہ شخص مسلمان باقی رہا؟  یا تجدید ایمان کرنا ہوگا؟ کیا اس کا نکاح برقرار ہے جب کہ اس کے دو بچے بھی ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں نشہ کی حالت میں مذکورہ الفاظ کہنے کی وجہ سے مذکورہ شخص دائرہ اسلام سے اگرچہ خارج نہیں ہواہو، تاہم  اسے فوری طور پر سچے دل سے بارگاہِ الہی میں ندامت اور شرمندگی کے احساس کے ساتھ  آئندہ نشہ نہ کرنے کا عزم کرتے ہوئے اس قبیح عمل سے توبہ کرنا ضروری ہوگا، نیز تجدیدِِ ایمان و تجدیدِِ نکاح کی  ضرورت نہیں، نکاح بدستور قائم ہے۔

غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر للحموي میں ہے:

"قَوْلُهُ: إلَّا فِي ثَلَاثٍ الرِّدَّةُ ... إلَخْ. أَقُولُ فِي الْخَانِيَّةِ فِي بَابِ الْخُلْعِ: خُلْعُ السَّكْرَانِ جَائِزٌ وَسَائِرُ تَصَرُّفَاتِهِ إلَّا الرِّدَّةَ وَالْإِقْرَارَ بِالْحُدُودِ وَالْإِشْهَادَ عَلَى شَهَادَةِ نَفْسِهِ.

وَقَالَ دَاوُد الظَّاهِرِيُّ: لَايَنْفُذُ مِنْهُ تَصَرُّفٌ مَا وَبِهِ قَالَ الْحَسَنُ بْنُ زِيَادٍ وَأَبُو الْحَسَنِ الْكَرْخِيُّ وَأَبُو الْقَاسِمِ الصَّفَّارُ وَهُوَ أَحَدُ قَوْلَيْ الشَّافِعِيِّ وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرِ بْنِ سَلَّامٍ: إنْ كَانَ مَعْذُورًا فِي الشُّرْبِ بِأَنْ كَانَ مُكْرَهًا أَوْ مُضْطَرًّا لَايَقَعُ طَلَاقُهُ وَ لَايَنْفُذُ تَصَرُّفَاتُهُ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ مَعْذُورًا يَقَعُ طَلَاقُهُ وَتَنْفُذُ تَصَرُّفَاتُهُ وَفِي رِدَّتِهِ قِيَاسٌ وَ اسْتِحْسَانٌ، فِي الِاسْتِحْسَانِ لَايَصِحُّ يَعْنِي؛ لِأَنَّ الْكُفْرَ وَاجِبُ النَّفْيِ وَ فِي الْقِيَاسِ يَصِحُّ، وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ أَنَّهُ كَانَ يَأْخُذُ بِالْقِيَاسِ فَإِنْ قَضَى الْقَاضِي بِقَوْلٍ وَاحِدٍ مِنْهُمْ نَفَذَ قَضَاؤُهُ. (انْتَهَى)."

(الْفَنُّ الثَّالِثُ مِنْ الْأَشْبَاهِ وَالنَّظَائِرِ وَهُوَ فَنُّ الْجَمْعِ وَالْفَرْقِ، أَحْكَامُ السَّكْرَانِ، ٣ / ٣٣١- ٣٣٢، ط: دار الكتب العلمية)

رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

"وَ قَدْ قَدَّمْنَاهُ أَوَّلَ كِتَابِ الطَّلَاقِ، وَكَتَبْنَا هُنَاكَ عَنْ التَّحْرِيرِ أَنَّ السَّكْرَانَ إنْ كَانَ سُكْرُهُ بِطَرِيقٍ مُحَرَّمٍ لَايَبْطُلُ تَكْلِيفُهُ، فَتَلْزَمُهُ الْأَحْكَامُ، وَتَصِحُّ عِبَارَاتُهُ مِنْ الطَّلَاقِ وَالْعَتَاقِ وَالْبَيْعِ وَالْإِقْرَارِ، وَتَزْوِيجِ الصِّغَارِ مِنْ كُفْءٍ وَالْإِقْرَاضِ وَالِاسْتِقْرَاضِ؛ لِأَنَّ الْعَقْلَ قَائِمٌ، وَإِنَّمَا عَرَضَ فَوَاتُ فَهْمِ الْخِطَابِ بِمَعْصِيَتِهِ فَبَقِيَ فِي حَقِّ الْإِثْمِ وَوُجُوبِ الْقَضَاءِ، وَيَصِحُّ إسْلَامُهُ كَالْمُكْرَهِ لَا رِدَّتُهُ لِعَدَمِ الْقَصْدِ اهـ."

( كتاب الحدود، باب حد الشرب المحرم، ٤ / ٤٢، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200322

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں