میری بیوی اپنی ماں کے گھر بیٹھتی ہے، لینے جاتا ہوں تو اس کی ماں اسے میرے ساتھ نہ آنے پر مجبور کرتی ہے، میں نے طلاق کی دھمکی دی تواس کی ماں اسے کہتی ہے کہ تم پریشان نہ ہو، یہ طلاق نہیں دے گا۔ اور میں دینا بھی نہیں چاہتا۔ نہ میری بیوی لینا چاہتی ہے، جس دن طلاق دے دی اس دن میری بیوی پچھتائے گی، مگر پھر کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ کوئی ایسا راستہ ہے کہ انہیں یقین ہو جائے کہ اب بس طلاق ہو جانی ہے گھر چلتے ہیں!
صورتِ مسئولہ میں آپ اپنے خاندان کے بڑے بزرگوں سے یہ درخواست کریں کہ وہ آپ کی اہلیہ اور آپ کی ساس سے نہ آنے کی وجوہات پوچھیں اور ان وجوہات کا حل تلاش کریں، اگر اس طرح معاملہ حل ہوجاتا ہے تو بہت اچھی بات، اگر کسی مناسب اور جائز تدبیر سے معاملہ حل نہیں ہوتا اور آپ کا غالب گمان یہ ہے کہ آپ کے طلاق دینے سے وہ اپنی اس حرکت سے باز آ جائیں گے تو آپ اپنی بیوی کوایک طلاقِ رجعی دے سکتے ہیں، اس طلاق کے بعد شوہر کو عدت کے اندر اپنی بیوی سے رجوع کرنے کا حق ہوتا ہے، یعنی یوں کہہ دے کہ میں نے رجوع کیا، ایسا کہنے سے رجوع ہو جاتا ہے، دوبارہ میاں بیوی بن جاتے ہیں، البتہ آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا حق باقی رہتا ہے، لہذا آپ بیوی کے فرماں بردار وتابع دار ہونے اور ساس کی اصلاح کی خاطر ایک طلاق رجعی دے سکتے ہیں اور جب معاملہ حل ہونے کی امید ہو تو رجوع کر لیں۔ البتہ طلاق کے لیے صریح الفاظ ایک مرتبہ ہی استعمال کیجیے، اگر تین مرتبہ طلاق کے الفاظ کیے تو رجوع یا تجدیدِ نکاح کی گنجائش نہیں رہے گی۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008202001
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن