بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے غسل میں کافور کے استعمال کا حکم


سوال

میت کو غسل دیتے وقت " کافور"  کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نیز آج کل "کافور"  کی قیمت بہت مہنگی ہے، اور غریب آدمی اس کو خرید نہیں سکتا تو آیا ایسی صورت میں "کافور"  کا نعم البدل کیا ہوسکتا ہے؟ یا نہیں ہو سکتا؟ براہِ کرم دلیل کے ساتھ جواب عنایت فرمادیں!

جواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کے اعضاءِ سجدہ پر "کافور " لگانے کا حکم دیا ہے، اس لیے  اس کا اہتمام کرنا مسنون ہے۔
"عن أم عطیة قالت: لما مات زینب بنت رسول اللّٰه صلی الله عليه وسلم قال: إغسلنها وتراً ثلاثاً أو خمسًا واجعلن في الخامسة کافوراً أو شیئاً من کافور۔ (صحیح مسلم ۱؍۳۰۵، صحیح البخاري ۱؍۱۶۸، الموطأ لإمام مالک ۷۷)"

اعضاءِ سجدہ پر "کافور" ملنے کا مقصداُن اعضاء کی تعظیم وتکریم اور جلد از جلد کیڑوں کی غذا بننے سے بچانا ہے، اور یہ مقصد دوسری خوشبوؤں اور عطر سے حاصل نہیں ہوسکتا، اس لیے عطر ملنے سے "کافور"  کی سنت ادا نہ ہوگی؛ لہٰذا جہاں تک ہوسکے "کافور" ہی ملا جائے۔مجبوری اور واقعۃً گنجائش نہ ہونے کی صورت میں کوئی اور خوشبو استعمال کرسکتے ہیں۔

"ویجعل الکافور علی مساجد لیطرد الدود عنها، وفي الطحطاوي: هنا حکمة تخصیص الکافور، فتخصیص بزیادة إکرام لها، أي لما کانت هذه الأعضاء یسجد بها خصت بزیادة إکرام صیانة لها عن سرعة الفساد۔ (حاشیة الطحطاوي ۵۷۱)" فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200189

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں