بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مشترکہ گھر کی تقسیم


سوال

دو بھائیوں کو میراث میں گھر ملا اور دونوں گھر تقسیم کیے بنا اس میں رہتے رہے. اب ان میں سے ایک بھائی کا انتقال ہو گیا. تو مرنے والے بھائی کی بیوی اور بیٹی کے ساتھ کیا گھر میں سے حصہ زندہ بھائی کے بچوں کو بھی ملے گا. یا پھر گھر کی تقسیم کس طرح ہوگی؟

جواب

مذکورہ صورت میں اگر دونوں بھائیوں کے علاوہ کسی اور شرعی وارث کا حصہ اس گھر میں نہیں تھا تو اب اس مرحوم بھائی کے شرعی ورثاء اور یہ زندہ بھائی اس گھر میں حصہ دار ہیں، یعنی  اگر دونوں بھائی برابر کے شریک تھے  تو نصف زندہ کا ہے اور نصف مرحوم کا، پھر مرحوم بھائی کا حصہ اس کے ورثہ میں شرعی اعتبار سے تقسیم ہوگا۔ اگر مرحوم بھائی کی اولاد میں بیٹا موجود ہے تو اس کے زندہ بھائی کو میراث میں حصہ نہیں ملے گا۔ بہتر ہے کہ میراث کی تقسیم کے لیے تمام ورثاء لکھ کر بھیج دیجیے؛ تاکہ ورثہ کا شرعی حصہ متعین کیا جاسکے۔  میت (مرحوم بھائی) کے والدین، اولاد ، بیوہ، بہن بھائی وغیرہ۔ 

"یصح بیع حصة شائعة معلومة کالنصف والثلث والعشر عقار مملوک قبل الإفراز". (شرح المجلة ۱/ ۱۰۳، رقم: ۲۱۴)
"وصح بیع عشرة أسهم أو أقل أو أکثر من مائة سهم من دار أو غیرها بالاتفاق؛ لأن العشرة منها اسم لجزء شائع والسهم أیضاً اسم لشائع … وبیع الشایع جائز". (مجمع الأنهر، کتاب البیوع ۳/ ۱۹)
(۲) لایجوز التصرف من مال غیره بلا إذنه ولا ولایته". (الدر المختار مع الشامية، کتاب الغصب، ۹/ ۲۹۱)
"کل من الشرکاء في شرکة الملك أجنبي في حصة سائرهم، فلیس أحدهم وکیلاً عن الآخر، ولایجوز له من ثم أن یتصرف في حصة شریکه بدون إذنه". (شرح المجلة، الفصل الثاني في کیفیة التصرف، ۱/ ۶۰۱، رقم: ۱۰۷۵)
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200020

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں