بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسنون داڑھی


سوال

مسنون داڑھی کے متعلق حوالے سے بتائیں!

جواب

احادیثِ مبارکہ میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو داڑھی بڑھانے کا حکم اور مونچھیں کٹانے کی خوب  ترغیب دی ہے۔ ڈاڑھی رکھنا واجب ہے۔  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی سے ایک مشت سے کم ڈاڑھی رکھنا ثابت نہیں ہے، لہٰذا ایک مشت سے کم کرنا جائز نہیں ہے، بالوں کی لمبائی کے اعتبار سے ڈاڑھی کی کم سے کم سنت مقدار ایک مشت ہے۔ فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ کانوں کے پاس جہاں سے جبڑے کی ہڈی شروع ہوتی ہے یہاں سے داڑھی کی ابتدا ہےاور یہ پورا جبڑا داڑھی کی حد ہے۔ 

حدیث شریف میں ہے:

صحيح البخاري- طوق النجاة (7/ 160):
"عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: خالفوا المشركين وفروا اللحى وأحفوا الشوارب. وكان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض على لحيته فما فضل أخذه".

المعجم الأوسط (5/ 196):
"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «وفروا اللحى، وخذوا من الشوارب، وانتفوا الآباط، واحذروا الفلقتين»".

 

حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بواسطہ والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں:

 "أَنَّ النَّبِيَ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا". ترجمہ: ’’نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی داڑھی مبارک لمبائی اور چوڑائی میں کم کرتے تھے۔‘‘ (ترمذی، السنن، 5: 94، رقم: 2762، بيروت: دار إحياء التراث العربي)

"عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ: خَالِفُوا الْمُشْرِکِينَ وَفِّرُوا اللِّحَی وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ. وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَی لِحْيَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ".

ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو، مونچھیں باریک کرو اور داڑھی بڑھاؤ۔ حضرت ابن عمر جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور جو اضافی ہوتی اس کو کاٹ دیتے۔‘‘ (بخاري، الصحيح، 5: 2209، رقم: 5553، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة)

مروان بن سالم مقفع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا۔ "يَقْبِضُ عَلَی لِحْيَتِهِ فَيَقْطَعُ مَا زَادَ عَلَی الْکَفِّ".

ترجمہ: ’’وہ اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں پکڑ کر جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے تھے۔‘‘ (أبي داؤد، السنن، 2: 306، رقم: 2357، دار الفکر حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1: 584، رقم: 1536، دار الکتب العلمية بيروت)

حضرت سماک بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، بیان کرتے ہیں: "کَانَ عَلَيً رضی الله عنه يَأخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِمَّا يَلِيْ وَجْهَهُ".

ترجمہ: ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے چہرے کے قریب سے داڑھی مبارک کاٹتے تھے۔‘‘ (ابن أبي شيبة، المصنف، 5: 225، رقم: 25480، مکتبة الرشد الرياض)

حضرت ابو زرعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "کَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ رضی الله عنه يَقْبِضُ عَلَی لِحْيَتِهِ ثُمَّ يَأخُذُ مَافَضَلَ عَنِ القُبْضَةِ".

ترجمہ:’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں پکڑتے اور مٹھی سے زائد داڑھی کو کاٹ دیتے تھے۔‘‘
فتح القدير للكمال ابن الهمام (2/ 348):
"وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 407):
" يحرم على الرجل قطع لحيته".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 100):
"(قوله: جميع اللحية) بكسر اللام وفتحها نهر، وظاهر كلامهم أن المراد بها الشعر النابت على الخدين من عذار وعارض والذقن.
وفي شرح الإرشاد: اللحية الشعر النابت بمجتمع الخدين والعارض ما بينهما وبين العذار وهو القدر المحاذي للأذن، يتصل من الأعلى بالصدغ ومن الأسفل بالعارض بحر".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200052

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں