بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسئلہ تقسیم وراثت


سوال

ہم تین بھائی اور ایک والدہ اور ایک بہن ہیں جو شادی شدہ ہیں، اور اپنے شوہر کے ساتھ الگ رہتی ہیں۔ دادا کا انتقال ہو چکا ہے اور دادی حیات ہیں، اور وہ چاچاوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ میرے دو بچے ہیں اور ایک بیوی ہے، میرے والد صاحب کا انتقال جولائی 2012 کو ہوا ہے۔ وہ کینسر کے مرض میں 10 ماہ مبتلا رہ کر انتقال کر گئے۔ میرا کاروبار آٹو انجینیرنگ کا ہے، اور میرا سوال کاروبار کے شرعی بٹوارے سے متعلق ہے۔ میرے والد صاحب نے اپنی زندگی میں جنوری 2010 میں کرائے پر ایک دکان لی  تھی، اور میں اپنے والد کے ساتھ کام پر لگا تھا۔ ابتدا میں دکان پر کوئی کام نہیں تھا، نہ ہی سامان، پھر آہستہ آہستہ میں نے اور والد نے مل کر مشینری اور ٹولز پورے کیے، جن میں بہت سی رقم والد نے ادھار بھی لی ہوئی تھی اور اس ادھار کو میں نے والد صاحب کے انتقال کے بعد دکان پر ہی کام کر کے اداد کردیا اور کر رہاں ہوں۔ ملکی حالات اور نیا کاروبار ہونے کی وجہ سے آمدنی کم اور خرچہ زیادہ ہے۔ دکان پر جو کچھ کام کرتا ہوں ان سے ماہانہ کوئی لگی بندھی تنخواہ نہیں لیتا اور کاروباری مد میں جو بھی نفع نقصان ہوتا ہے وہ میں ہی دیکھتا ہوں۔ اب والدہ کی خواہش ہے کہ اس کاروبار میں وراثت کی مد میں حساب کتاب کیا جائے۔ والدہ کا کہنا ہے کہ اس کاروبار میں ہم چاروں بھائیوں بہنوں کا حصہ ہے۔میرے بھائی اپنی الگ الگ نوکریاں کرتے ہیں، جب کہ میرا ذریعہ معاش یہی کاروبار ہے۔ والدہ چاہتی ہیں کہ ابھی تو میں ہی اس کاروبار کو چلاوں، اور اس کاروبار سے ان کو بھی خرچے کے پیسے دوں، لیکن جب بھی کاروبار کا بٹوارہ ہوگا تو حصہ چاروں بھائی بہنوں کا ہوگا۔ اس کاروبار سے میں نے کبھی کبھار والدہ کے کہنے پر گھر پر بھی پیسے خرچ کیے ہیں، اب میرا سوال یہ ہے کہ کاروبار کے بٹوارے کی صورت میں شرعی ورثا کا کیا حصہ ہوگا؟ اگر کاروبار کا بٹوارہ ابھی ہو تو اس کی شرعی صورت کیا ہے اور اگر کچھ عرصے بعد ہو تو پھر اس کا آج سے کیا طریقہ کار ہونا چاہیے؟

جواب

اس مذکورہ کاروبار میں لگا ہوا سرمایہ ونفع سب آپ کے مرحوم والد کی وراثت میں شامل ہے اور یہ سب کچھ مرحوم کا ترکہ شمار ہوکر   شرعی ورثا میں یوں تقسیم ہوگا کہ سب سے پہلے مرحوم کے کفن ودفن میں استعمال خرچ کی رقم کو نکال کر، مرحوم کے قرضوں کی ادائیگی کرنے کے بعد، اگر مرحوم کی کوئی وصیت ہو تو ایک تہائی ترکے سے وہ وصیت پوری کرنے کے بعد اس کاروبار سمیت جملہ املاک میں سے 50۔12فیصد بیوہ کو، 66۔16 فیصد والدہ کو، 23۔20 فیصد ہر ایک بیٹے کو، 11۔10 فیصد بیٹی کو ملے گا۔

آپ کو چاہیے کہ فی الحال کاروبار کا بٹوارہ کرلیں اور اگر عملی بٹوارہ ممکن نہ ہو تو کم از کم حصص طے کرلیں اس کے بعد اگر وارث چاہے تو آپ کے ساتھ اپنا حصہ باقی رکھے اور چاہے تو الگ ہوجائے اور یوں بھی ممکن ہےکہ آپ ان کے لیے ورثاء کے حصص کو استعمال میں لائیں اور ان کے لیے نفع طے کردیں۔اس طرح کاروبار بڑھے گا تو آپ کا ہوگا اور کل کلاں کو  بہن بھائیوں کو آپ کے کاروربار میں ملکیت کے مطالبے کاحق نہ ہوگا۔

 


فتوی نمبر : 143506200034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں