مرے ہوئے آدمی کاعقیقہ کرنا کیسا ہے؟
صاحبِِ استطاعت افراد کے لیے اپنے نومولود بچہ کا عقیقہ اس کی زندگی میں کرنا مستحب ہے، اور اس کا مستحب وقت پیدائش کا ساتواں دن ہے، اگر ساتویں روز عقیقہ نہ کرسکے تو چودہویں روز کرلے، اور چودہویں روز نہ کیا تو اکیسویں روز کرلے، اور کسی مجبوری کے بغیر اس سے زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ سنن ترمذی میں ہے:
’’عن سمرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: الغلام مرتهن بعقيقته، يذبح عنه يوم السابع، و يسمي و يحلق رأسه. قال الإمام الترمذي: و العمل علي هذا عند أهل العلم، يستحبون أن يذبح عن الغلام يوم السابع، فإن لم يتهيأ يوم السابع فيوم الرابع عشر، فإن لم يتهيأ عق عنه يوم إحدي و عشرين‘‘. (أبواب الأضاحي، باب ما جاء في العقيقة، ١/ ٢٧٨، ط: سعيد)
صورتِ مسئولہ میں جو بچہ پیدائش سے پہلے انتقال کر گیا ہو یا زندہ پیدا ہونے کے بعد عقیقہ سے پہلے انتقال کر گیا ہو یا کسی شخص کا بلوغت تک عقیقہ نہ ہوا ہو اور وہ انتقال کر گیا ہو یا زندہ ہو ان تمام صورتوں میں عقیقہ نہیں کیا جائے گا، مرحومین کے نام پر عقیقہ کرنے کا احادیث سے ثبوت نہیں ملتا، البتہ مرحومین کی طرف سے نفلی قربانی کی جا سکتی ہے، لہذا عقیقہ کرنے کے بجائے نفلی قربانی کرلی جائے۔
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامديةمیں ہے:
" ووقتها بعد تمام الولادة إلى البلوغ، فلا يجزئ قبلها، وذبحها في اليوم السابع يسن، والأولى فعلها صدر النهار عند طلوع الشمس بعد وقت الكراهة ؛ للتبرك بالبكور". (٢/ ٢١٣)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200635
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن