بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرنے کے بعد عذابِ قبر کیسے محسوس ہوتا ہے؟


سوال

مجھے یہ جاننا ہے کہ جب ایک زندہ انسان کو کرنٹ لگتا ہے تو جب تک روح اس کے جسم میں موجود ہے اُسے تکلیف محسوس ہوتی ہے، لیکن جیسے ہی روح نکل جاتی ہے وہ بے جان جسم بن جاتا ہے،  اب بے شک اُسے کتنا کرنٹ لگا ئیں اسے کچھ محسوس نہیں ہوگا۔ اسی طرح جب تک انسان زندہ ہے اسے درد ہوگا۔ روح قبض کیے جانے کے بعد عالمِ برزخ بھیج دی جائے گی، پھر وہ قبر کے عذاب کوکیسے محسوس کرےگا؟

جواب

 انسان کے مرنے کے بعد اس کا تعلق اس ظاہری اور دنیوی عالم سے نہیں رہتا،  بلکہ اس کا تعلق ایک اور عالم سے ہوجاتاہے، جس کوعالمِ برز خ (اورعرفِ عام میں عالمِ قبر) کہتے ہیں۔اب جوکچھ اس پرگزرتاہے وہ دنیوی عالم میں نہیں، بلکہ  اس دوسرے عالم میں ہوتاہے اوراس دوسرے عالم کواللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ بالغہ سے عام انسانوں سے مخفی رکھاہواہے؛ لہٰذا اس پر اچھا یابُرا جو کچھ  گزرتا ہے ، اس کا اس  دنیا میں مشاہدہ  عام طورپرنہیں ہوتا، مردہ ہمارے سامنے ہوتا ہے اور اس پر عذاب یاراحت کامعاملہ ہوتاہے؛ مگراس کے باوجود چوں کہ یہ معاملہ عالمِ برزخ کاہے ؛ اس لیے ہم کو محسوس ومشاہد نہیں ہوتا۔ اور ہمارے نہ دیکھنے یا محسوس نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ مردے کو تکلیف یا راحت محسوس نہیں ہورہی، بلکہ اسے راحت اور تکلیف بھی محسوس ہوتی ہے، لیکن یہ سب اللہ تعالیٰ نے ہم سے مخفی رکھا ہے، تاکہ ایمان بالغیب باقی رہنے کی بدولت انسان اجر و ثواب کا مستحق بھی ہو اور اس کی آزمائش بھی ہو۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ قبر میں جو عذاب دیا جاتاہے انسان اور جنات کے علاوہ تمام مخلوقات اسے محسوس کرتی ہیں۔ چوں کہ انسان اور جنات مکلف ہیں اس لیے انہیں یہ دکھایا نہیں جاتا، تاکہ آزمائش اور انسان کا اپنا اختیار مکمل باقی رہے، اور اپنے اختیار سے اچھی یا بری راہ منتخب کرنے کی صورت میں اجر و ثواب اور سزا کا مستحق بنے۔
اس کی ایک مثال تقریبِ فہم کے لیے یہ ہے کہ انسان سوتاہے اور عالمِ یقظہ (بیداری) سے عالمِ نوم(سونے کے عالم) کوپہنچ جاتاہے اور اس دوسرے عالم (سونے کے عالم) میں وہ خواب کے اندرکبھی اچھی اور دل خوش کن باتیں اورکبھی اذیت ناک وتکلیف دہ امورکا مشاہدہ کرتاہے اور اس عالم میں دوسرو ں سے سنتااور گفتگوکرتاہے،کبھی دوڑتا، مارتا، کھاتا، پیتاہے اوراسی کے پاس بیٹھے ہوئے افراد کوجو عالمِ یقظہ میں ہیں اس دوسرے عالم کی کوئی خبرنہیں ہوتی، اوربسااوقات اس کی  بتائی ہوئی باتیں سچ وحق ظاہرہوتی ہیں، اور اس سے بڑھ کر بعض اوقات خواب میں محسوس کی گئی جسمانی، مالی یا روحانی تکلیف حقیقت میں بھی لاحق ہوجاتی ہے اور بعض اوقات خواب میں حاصل ہونے والی راحت بیداری میں بھی حاصل ہوجاتی ہے۔اس مثال سے عالمِ برزخ اور عالمِ دنیا کافرق ظاہر ہوجاتا ہے؛ نیز اُس عالم کی بہت سی باتو ں کے ہمارے مشاہدہ میں نہ آنے کی بات قریب الفہم ہوجاتی ہے۔
حاصل یہ ہے کہ مردہ ہمارے درمیان رہتے ہوئے بھی دوسرے عالم میں ہے، جیسے سونے والا ہمارے درمیان میں ہوتے ہوئے بھی دوسرے عالم میں ہوتاہے، اورجس طرح وہ بہت سی اچھی اور بری باتیں محسوس کرتا اور اٹھتا، بھاگتا، کھاتاپیتاہے اوراس کی ان حرکات کوبازو بیٹھے ہوئے لوگ محسو س نہیں کرپاتے، اسی طرح عالمِ برزخ میں گزرنے والے حالات کاعلم مردہ، تومحسوس کرتاہے؛ مگر اِس عالم دنیا کے لوگ محسوس نہیں کرتے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ مردے کو دفن کرنے والے جب لوٹتے ہیں تو وہ ان کے قدموں کی آہٹ سن رہاہی ہوتاہے کہ منکر نکیر اس سے حساب لینے آجاتے ہیں۔

عذابِ قبر کی حقیقت وصداقت قرآن کی متعدد آیات اوراحادیثِ نبویہ  سے  ثابت ہے اوراس سلسلے میں اتنی حدیثیں آئی ہیں کہ بعض محدثین نے ان کومتواتر قراردیا ہے اوراہلِ اسلام کاشروع دور سے یہ متفقہ عقیدہ چلاآرہاہے کہ قبر میں نیکوں کوثواب اوربروں کوعذاب ہوتاہے، اس پر  اہلِ سنت والجماعت کا اجماع ہے۔ اور یہ عقیدہ درحقیقت عقیدہ آخرت کا تکملہ و تتمہ ہے، جو اسلام کا بنیادی و اساسی عقیدہ ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200048

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں