بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد کے لیے بوسکی کپڑا پہننے کا حکم


سوال

بوسکی سوٹ پہننا کیسا ہے؟ کیاریشم کے زمرے میں داخل تو نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ ہر ایسا کپڑا جس کا تانا بانا دونوں ریشم کے ہوں یا بانا ریشم کا ہو یا تانا بانا دونوں میں ریشم شامل ہو اور مجموعی طور پر ریشم غالب ہو وہ مردوں کے لیے پہننا حرام ہے، بصورتِ دیگر تمام کپڑے مردوں کے لیے استعمال کرنا شرعاً جائز ہے۔

اس وقت مارکیٹ میں ’’بوسکی‘‘ کے نام سے منسوب کئی قسم کے کپڑے فروخت کیے جارہے ہیں، جن میں سے بعض کی تیاری میں خالص ریشم ہی استعمال ہو رہا ہے اور بعض کا بانا خالص ریشم کا ہے اور بعض مخلوط دھاگے سے تیار کیا جارہا ہے، اور عموماً’’بوسکی‘‘ کپڑا مصنوعی (آرٹیفشل) ریشم سے تیار کیا جارہا ہے، اگرچہ اسے خالص ریشم سمجھا جاتاہے؛ لہٰذا ’’بوسکی‘‘ کپڑے کو مطلقاً ریشم نہیں کہا جاسکتا، الا یہ کہ کسی کپڑے کے بارے میں تحقیق سے ثابت ہوجائے۔

بہرحال مرد کے پہننے کے لیے  بوسکی کپڑے کی خریداری سے پہلے خریدار خوب اچھی طرح معلومات کرنے کے بعد ’’بوسکی‘‘  کپڑا خریدا جائے۔ اگر وہ خالص ریشم یا اس کا بانا خالص ریشم کا ہو یا تانا بانا میں اکثر ریشم کا ہو اور ریشم غالب بھی ہو تو ایسا کپڑا مرد کے لیے پہننا جائز نہیں۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

’’حدثنا ابن نفيل حدثنا زهير حدثنا خصيف عن عكرمة عن ابن عباس قال: إنما نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الثوب المصمت من الحرير، فأما العلم من الحرير وسدى الثوب فلا بأس به‘‘. ( سنن أبي داود » كتاب اللباس » باب الرخصة في العلم وخيط الحرير، رقم الحديث: ٤٠٥٥)

عون المعبود میں ہے:

’’وقال الطيبي : هو الثوب الذي يكون سداه ولحمته من الحرير لا شيء غيره ، ومفاد العبارتين واحد ( وسدى الثوب ) : بفتح السين والدال بوزن الحصى ، ويقال ستى بمثناة من فوق بدل الدال لغتان بمعنى واحد وهو [ ص:82 ] خلاف اللحمة وهي التي تنسج من العرض وذاك من الطول ، والحاصل أنه إذا كان السدى من الحرير واللحمة من غيره كالقطن والصوف ( فلا بأس )؛ لأن تمام الثوب لا يكون إلا بلحمته .  والحديث يدل على جواز لبس ما خالطه الحرير إذا كان غير الحرير الأغلب وهو مذهب الجمهور‘‘.

التمهيد في الموطأ من المعاني و الأسانيدمیں ہے:

’’لا يختلفون في الثوب المصمت الحرير الصافي الذي لا يخالطه غيره أنه لايحل للرجال لباسه‘‘. (١٤/ ٢٤٠)

الاختيار لتعليل المختارمیں ہے:

’’لا بأس بلبس ماسداه إبريسم و لحمته قطن أو خز‘‘. (ص: ٤٩)

تنویر الأبصار مع الدر المختارمیں ہے:

’’و يحل ( لبس ما سداه ابريسم و لحمته غيره) ككتان و قطن و خز؛ لأن الثوب إنما يصير ثوباً بالنسج، و النسج باللحمة، فكانت هي المعتبرة دون السدي‘‘.

و في الشامية: ’’( قوله: و لحمته غيره) سواء كان مغلوباً أو غالباً أو مساوياً للحرير، و قيل: لا بأس إلا إذا غلبت اللحمة علي الحرير، و الصحيح الأول‘‘. ( شامي، كتاب الحظر و الإياحة، ٦/ ٣٥٦، ط: سعيد) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201609

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں