بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد و عورت کی نماز کے درمیان فرق


سوال

 مرد اور عورتوں کی نماز کا فرق حدیث کی روشنی میں بتا دیجیے!

جواب

مرد و عورت کی نماز میں چند وجوہ سے فرق ہے:

مرد تکبیر تحریمہ کے وقت اپنے ہاتھ کانوں کے برابر اس طرح اٹھائے کہ انگوٹھے کانوں کی لو کے برابر اور ہاتھوں کی انگلیوں کے سرے کانوں کے اوپر والے حصہ کے برابر ہو جائیں، جب کہ عورت تکبیر تحریمہ کے وقت اپنے کاندھوں کے برابر اپنے ہاتھ اٹھائے، یہ صحیح تر ہے؛ کیوں کہ اس میں اس کی زیادہ پردہ پوشی ہے۔

2۔  مردوں کے ہاتھ باندھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ کر، انگوٹھے اور چھنگلیا سے بائیں ہاتھ کے گٹے کو پکڑتے ہوئے تین انگلیاں کلائی پر بچھا کر ناف کے نیچے رکھتے ہیں، جب کہ عورت قیام کے وقت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی۔

مرد رکوع میں اپنی انگلیوں کو کشادہ کرتے ہوئے گھٹنوں کو پکڑے گا، اپنی کہنیوں کو پہلو سے جدا رکھے گا اور پشت کو سیدھا رکھے گا، تاکہ اس کا سر اور پشت ایک سیدھ میں آ جائیں اور سر کو نہ اونچا کرے گا نہ نیچا بلکہ پشت کی سیدھ میں رکھے گا،  جب کہ عورت رکوع میں مرد کی بنسبت کم جھکے گی، اپنے ہاتھ بغیر کشاد کیے ہوئے گھٹنوں پر رکھے گی اور کہنیوں کو پہلو سے ملا کر رکھے گی۔

مرد سجدہ میں اپنا پیٹ رانوں سے دور رکھیں گے، اپنی کہنیوں کو زمین سے بلند رکھتے ہوئے پہلو سے جدا رکھیں گے اور سرین کو اونچا کریں گے۔  اور عورت مرد کی طرح کھل کر سجدہ نہیں کرے گی، بلکہ پیٹ کو رانوں سے ملائے گی، بازؤوں کو پہلو سے ملا کر رکھے گی اور کہنیاں زمین پر بچھا دے گی۔

مردوں کے بیٹھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں پاؤں کو انگلیوں کے بل کھڑا کر لیں اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھ جائیں۔  جب کہ عورت کے بیٹھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں پاؤں دائیں جانب نکال کر سرین کے بل اس طرح بیٹھے کہ دائیں ران بائیں ران کے ساتھ ملا دے۔ 

مرد و عورت کی نماز کا یہ فرق فقہاءِ  کرام نے احادیث میں غور کر کے بیان فرمایا ہے، جن احادیث سے یہ فرق ماخوذ ہیں وہ یہ ہیں:

1- "عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: إِنَّه رَأى النَّبِيَّ صلی الله علیه وسلم إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاةَ رَفَعَ یَدَیْهِ حَتیّٰ تَکَادَ إِبْهَامَاهُ تُحَاذِيْ شَحْمَةَ أُذُنَیْه". (سنن النسائي ج 1ص141 باب موضع الإبهامین عند الرفع)

2- "عَنْ وَائِلِ بن حُجْرٍ، قَالَ: جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:يَا وَائِلُ بن حُجْرٍ، إِذَا صَلَّيْتَ فَاجْعَلْ يَدَيْكَ حِذَاءَ أُذُنَيْكَ، وَالْمَرْأَةُ تَجْعَلُ يَدَيْهَا حِذَاءَ ثَدْيَيْهَا". (المعجم الکبیر للطبراني: ج9ص144رقم17497)

3- "عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضي الله عنه قَالَ: رَأَیْتُ النَّبِيَّ صلی الله علیه وسلم وَضَعَ یَمِیْنَه عَلَی شِمَالِه في الصَّلاةِ تَحْتَ السُّرَّة". (مصنف ابن أبي شیبة ج3 ص321،322، وضع الیمین علی الشمال،رقم الحدیث 3959)

4- "عن عطاء قال: تجتمع المراة إذا ركعت ترفع يديها إلى بطنها وتجتمع ما استطاعت". (مصنف عبدالرزاق ج 3 ص50 رقم 5983)

5- "عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ الْأَسْدِيِّ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ فَرَّجَ بَيْنَ يَدَيْهِ حَتَّى نَرَى إِبْطَيْهِ. قَالَ: وَقَالَ ابْنُ بُكَيْرٍ: حَدَّثَنَا بَكْرٌ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ". (صحیح البخاري، باب صفة النبي صلی الله علیه و سلم. صحیح مسلم، باب ما یجمع صفة الصلاة وما یفتتح به ویختم به وصفة الركوع والاعتدال منه والسجود الخ)

6- "عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ، فَقَالَ: إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الأَرْضِ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالرَّجُلِ".(مراسیل أبي داؤد: ص103 باب مِنَ الصَّلاةِ، السنن الکبری للبیهقي: ج2ص223, جُمَّاعُ أَبْوَابِ الاسْتِطَابَة)

7- "عَنْ أبِي سَعِیْدٍالْخُدْرِي رضي الله عنه صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰه صلی الله علیه وسلم أَنَّه قَالَ: ... وَکَانَ یَأْمُرُالرِّجَالَ أَنْ یَّفْرِشُوْا الْیُسْریٰ وَیَنْصَبُوْا الْیُمْنٰی فِي التَّشَهُّدِ، وَ یَأْمُرُالنِّسَاءَ أَنْ یَّتَرَبَّعْنَ". (السنن الکبری للبیهقي ج 2ص222.223 باب ما یستحب للمرأة... الخ)

فقہی حوالہ جات:

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"وَكَيْفِيَّتُهَا إذَا أَرَادَ الدُّخُولَ في الصَّلَاةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حِذَاءَ أُذُنَيْهِ حتى يُحَاذِيَ بِإِبْهَامَيْهِ شَحْمَتَيْ أُذُنَيْهِ وَبِرُءُوسِ الْأَصَابِعِ فُرُوعَ أُذُنَيْهِ". (الفتاویٰ الهندیة: ج1 ص80)

فتح القدیر میں ہے:

"المرأة ترفع يديها حذاء منکبيها، وهو الصحيح؛ لأنه أسترلها"(فتح القدير لابن الهمام، ج1ص246)

"واستحسن كثير من مشايخنا ... بأن يضع باطن كفه اليمنى على كفه اليسرى، ويحلق بالخنصر والإبهام على الرسغ". (عمد ۃ القاری: ج4 ص389 باب وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلاۃ)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"والمرأة تنحنی في الرکوع يسيراً ولاتعتمد ولاتفرج أصابعها، ولکن تضم يديها وتضع على رکبتيها وضعاً وتنحنی رکبتيها ولاتجافی عضدتيها"(فتاویٰ عالمگیری: ج1ص74)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فأما المرأة فينبغي أن تفترش ذراعيها و تنخفض ولاتنتصب کانتصاب الرجل و تلزق بطنها بفخذيها؛ لأن ذلک أسترلها". (بدائع الصنائع: ج1 ص210)

فتح القدیر میں ہے:

"جلست علی إليتها الأيسری و أخرجت رجليها من الجانب الأيمن؛ لأنه أسترلها". (فتح القدير لابن الهمام:ج1ص274)

 

اس مسئلے سے متعلق مزید فتاویٰ تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

احادیث سے مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق کا ثبوت

مرد و عورت کی نماز میں فرق کی دلیل کیا ہے؟

مردوعورت کی نماز میں فرق احادیث میں

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200488

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں