بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مختلف کرنسیوں کی ادہار خریدوفروخت کا حکم


سوال

            1۔زید اوربکر دو کاروباری حضرات ہیں، زید کو اپنے کاروبار کی ترقی کے لیے پیسے کی ضرورت ہے،  وہ بکر سے پیسے کا مطالبہ کرتا ہے،  بکر مارکیٹ سے دراہم خرید کر زیدکو وہ دراہم کچھ منافع کے ساتھ فروخت کرتا ہے، زید کی خواہش کے مطابق وہ ٹوٹل رقم ماہانہ قسطوں کے حساب سے ادا کرے گا؛  کیوں کہ قسط میں ان کو آسانی ہوگی، کیا یہ سودا شریعت میں جائز ہے؟  مثال کے طور پر بکر ایک لاکھ روپے  پر چار ہزاردراھم خرید کر زید پر ایک لاکھ ستائیس ہزار روپے پر فروخت کرتا ہے، زید نے دراھم قبول کیے اور خوش بھی تھا،  لیکن اس نے بکر سے مطالبہ کیا کہ میرے لیے قسط مقررکریں۔ میں ماہانہ تین ہزار روپے ادا کروں گا۔اس طرح زید ایک لاکھ ستائیس  ہزار روپے ماہانہ تین ہزار قسط کے حساب سے ادا کرتا رہتا ہے۔یہاں تک کہ رقم پوری ہو جائے۔ کیا یہ سودا جائز ہے ؟  جنس مختلف ہو تو ہم ایک چیز کوقسطوں پر زیادہ قیمت پر فروخت کر سکتے ہیں۔ کیا دراہم اور روپے مختلف جنس نہیں؟ اس میں تفاضل کاکیا حکم ہے ؟اور قسط کا کیا حکم ہے ؟

2۔مندرجہ بالا سودے میں بکر اگر دراہم کے بجائے موٹر کار خریدے اور پھر زید پر ایک لاکھ ستائیس ہزار روپے پر قسطوں کے حساب سے فروخت کر دے۔ تو زید کا اصل مقصد روپیہ ہے جو وہ کاروبار میں لگانا چاہتاہے،  موٹر نہیں، لہذا اس صورت میں وہ اگر موٹر کی جگہ دراھم خریدیں تواس صورت میں زید کو کرنسی تبدیل کرنے میں آسانی ہے بجائے کہ وہ موٹر کار خریدے ۔لہذا دراہم کی صورت میں تفاضل اور قسط کا کیا حکم ہے ؟

جواب

1۔ایک ملک کی کرنسی کی دوسرے ملک کی کرنسی کے ساتھ خرید وفروخت کمی زیادتی کے ساتھ  تو جائز ہے، لیکن معاملہ نقد  یعنی ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری ہے،  یعنی ایک ہی مجلس میں دونوں کرنسیوں پرفریقین قبضہ کرلیں، کرنسی کی خرید وفروخت میں اُدھار جائز نہیں۔  سوال کی ابتدا میں جو صورت ذکر کی گئی  ہے وہ ناجائز ہے، کیوں کہ زید ٗبکر کو  پاکستانی کرنسی میں جو زائد رقم اداکرے گا وہ قسطوں میں اداکرے گا اور کرنسی کی اُدھار خرید وفروخت ناجائز ہے۔  اگر اس طرح کا معاملہ کیا جا چکا ہے تو اسے ختم کرنا واجب ہے اور اس لین دین کے نتیجے میں اگر کسی فریق کو کوئی مالی فائدہ حاصل ہوا ہے تو وہ بھی واپس کرنا واجب ہے۔

 الدرالمختار میں ہے:

’’(وإلا) بأن لم یتجانسا ( شرط التقابض) لحرمۃ النسأ (فلو باع) النقدین (أحدہما بالآخر جزافًا أو بفضل وتقابضا فیہ) أی فی المجلس (صح و) العوضان (لایتعینان)… (ویفسد) الصرف (بخیار الشرط والأجل) لإخلالہما بالقبض۔  وفی الشامیۃ (قولہ: لحرمۃ النسأ) بالفتح أی التأخیر فإنہ یحرم بإحدی علتی الربا: أی القدر أو الجنس… الخ‘‘     (باب الصرف،ج: ۵،ص:۲۵۸-۲۵۹،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

 ’’(و) یجب (علی کل واحد منهما فسخه قبل القبض) ویکون امتناعًا عنه ابن ملک (أو بعده مادام) المبیع بحاله جوهرة (في ید المشتری) إعدامًا للفساد؛ لأنه معصیة فیجب رفعها.‘‘      (الدرالمختار،ج:۵،ص:۹۱،ط:سعید، کراچی)

2۔ اگربکر گاڑی خرید کر زید پر زائد قیمت میں قسطوں پر فروخت کرتاہے اور زید اس گاڑی پر قبضہ کرکے اسے مارکیٹ میں فروخت کردیتاہے تو شرعاً اگرچہ بیع کی یہ صورت درست ہے، کیوں کہ نقد کے بجائے قسطوں پر فروخت کی صورت میں زائد رقم کالینا بائع کے لیے جائز ہے۔ تاہم یہاں بھی زید کا اصل مقصد رقم کاحصول ہے، لہذا بجائے قرض حسنہ دینے کے یہ صورت اختیارکرنا ایک مسلمان کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا بھی ہے، جو ’’بیعِ عینہ‘‘ کی صورتوں میں سے ایک ہے؛ لہٰذا اگر کاروبار میں وسعت ہی دینی ہے اور بکر قرض حسنہ دینے پر تیار نہیں ہے تو  یہ صورت اختیار کرنا چاہیے کہ زید جس چیز کا کاروبار کررہاہے وہ چیز بکر خود یا اپنے وکیل کے ذریعے خرید کر اپنے قبضہ اور ضمان میں لے لے، پھر زید کو اھار پر قیمت متعین کرکے قسطوں پر بیچ دے ۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201600

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں