بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ماتم کے جواز کے لیے "لا یحب اللہ الجہر" کو مستدل بنانے کا حکم


سوال

﴿لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ﴾  کیا اس آیت سے ماتم کی اجازت ملتی ہے؟

جواب

سوال میں جس آیت کا ذکر کیا گیا ہے،  اس آیت کا ترجمہ یہ ہے:

"اللہ کو پسند نہیں کسی بری بات کا ظاہر کرنا، مگر جس پر ظلم ہوا ہو، اور اللہ ہے سننے والا اور جاننے والا"۔ 

اس آیت کے تحت مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر "معارف القرآن"  میں لکھتے ہیں:

"اللہ تعالیٰ بری بات زبان پر لانے کو (کسی کے لیے) پسند نہیں کرتے بجز مظلوم کے (کہ اپنے مظالم کی نسبت کچھ حکایت شکایت کرنے لگے تو وہ گناہ نہیں) اور اللہ تعالیٰ (مظلوم  کی بات) خوب سنتے ہیں (اور ظالم کے ظلم کی حالت) خوب جانتے ہیں"۔

معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص کے ساتھ کوئی ظلم ہوا ہو تو  اس ظلم کے متعلق لوگوں کو آگاہ کرنا اور دوسروں سے اس کی شکایت کرنے کی اجازت اس آیت میں دی گئی ہے۔

"تفسیر مظہری" میں ہے:

 التفسير المظهري (2 ق 2/ 266)
"﴿لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ﴾  يعني يبغض الجهر بالسوء وغير الجهر أيضاً، لكن الجهر أفحش، وإنما خصّ الجهر بالذكر؛ لمطابقة الحادثة ﴿إِلَّا مَنْ ظُلِمَ﴾  إلّا جهر من ظلم بالدعاء على الظالم والتظلم منه، وقيل: الجهر بالسوء من القول، هو الشتم إلّا من ظلم؛ فانه إن ردّ عليه مثله فلا حرج".

یعنی اگر کسی شخص پر ظلم ہوا ہو تو اس کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ ظالم پر بد  دعا کرے،  اس میں کوئی حرج نہیں۔

اسی قسم کا مضمون دیگر تفاسیر میں بھی لکھا ہے:

الدر المنثور في التفسير بالمأثور (2/ 723)
"وأخرج ابن جرير عن السدي في الآية يقول: إن الله لا يحب الجهر بالسوء من القول من أحد من الخلق، ولكن يقول: من ظلم، فانتصر بمثل ما ظلم فليس عليه جناح".

معلوم ہواکہ نہ تو مذکورہ آیت کے الفاظ سے ماتم کا ثبوت ملتاہے، اور نہ ہی اس آیت کی تفسیر سے ماتم کے ثبوت کی طرف اشارہ ملتاہے۔ اس کے برعکس احادیثِ مبارکہ سے ماتم کی ممانعت و حرمت ثابت ہوتی ہے ؛ لہٰذا ماتم کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی اس آیت کو ماتم کے جواز کے لیے دلیل کے طور پر پیش کرنا درست ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200203

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں