بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

لفظ مولانا کی تاریخی حیثیت


سوال

کیا عالم دین کو مولوی کہنا درست ہے? کسی عالم دین کو پاک و ہند میں عام طور پر مولانا یا مولوی کا لقب دیا جاتا ہے-راقم چونکہ خود بھی فاضل وفاق المدارس ہے-اس لیے کبھی کبھی ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ قرون اولی کے علماء سے یہ لقب منسوب نہیں ہے- اور قدیم و موجود اہل عرب کے علما کو بھی اس لقب سے لکھا یا پکارا نہیں جاتا-تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے علماء نے یہ لقب کہاں سے اختیار فرمایا- بطور طالب علم میں آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس لفظ کی تاریخ کیا ہے؟ سب سے پہلے یہ لقب کس نے کس کو دیا؟ نیز یہ بھی ارشاد فرماییں کہ علماء اھل عرب کا اس لقب سے اجتناب کیوں ؟ اور کہیں یہ لفظ ایرانی سازش تو نہیں کہ ہم بے خبری میں اس لفظی غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ" مولیٰ" فصیح عربی زبان کا لفظ ہے جس کا استعمال قرآن مجید، احادیث مبارکہ اورکلام عرب میں موجودہے، علماء عربیت نے اس کے پچاس سے زائد معانی بیان کیے ہیں عام لغات میں بھی اس کے پندرہ سترہ معانی بآسانی دستیاب ہیں۔ اسی لفظ کے ساتھ "نا" ضمیر بطورمضاف الیہ استعمال کی جاتی ہے۔ جہاں تک اس کے سب سے پہلے استعمال کی بات ہے تو خود اللہ جل شانہ نے قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت کرکے اپنے، جبریل امین اور  نیک مسلمانوں کے لیے یہ لفظ استعمال فرمایاہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "فان اللہ ھو مولاہ وجبریل وصالح المومنین"، یعنی بے شک اللہ تعالیٰ اورجبریل اور نیک اہل ایمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مولیٰ ہیں۔ یہاں ایک ہی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بھی، فرشتے کے لیے بھی اور خواص اہل ایمان(یعنی نیکوکاروں)کے لیے بھی یہ لفظ استعمال فرمایاہے۔ جس سے معلوم ہواکہ جبریل امین اور تمام نیکو کار اہل ایمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مولیٰ ہیں، اور یہ لقب انہیں خود بارگاہ ایزدی سے عطاہواہے۔ اس سے آگے چلیں تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو فرمایا: "یا زید انت مولانا"۔ معلوم ہوا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مولیٰ ہیں۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فرمایاکہ:"من کنت مولاہ فعلی مولاہ"۔

قرآن پاک اور احادیث کے اس استعمال سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ یہ لفظ خالص عربی اور فصیح لفظ ہے نہ کہ فارسی یا ایرانی۔ اورمختلف مواقع پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال سے بھی معلوم ہوگیا کہ نیک اور خاص اہل ایمان کے لیے یہ لفظ بطور اعزاز کے استعمال کیاجاناچاہیے۔ اسی استعمال اوربرکت کی نسبت سے قدیم زمانہ سے اہل حق علماء نے اصحاب علم کے لیے یہ لفظ بطور احترام منتخب کیاہے۔ جیساکہ قدیم زمانے میں ''ملا'' اس عالم کو کہاجاتاتھاجو کسی استاذ کی خدمت میں سالہاسال رہ کر مہارت تامہ حاصل کرلے۔ اور اب مولانا کالفظ خاص اصطلاح ہوگئی ہے جوہردرس نظامی سے فارغ التحصیل کے لیے استعمال ہوتی ہے خواہ وہ علم میں پختہ ہویانہ ہو۔ لہٰذا اسے سازش نہیں کہاجائے گا بلکہ یہ استعمال قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی اقتدا میں ہے۔

جہاں تک بات عرب علماء کی ہے توان کے ہاں بھی احترام کے لیے قدیم اور موجود ہرزمانے میں مختلف الفاظ استعمال ہوتے آئے ہیں اور آج بھی مختلف علاقوں میں مختلف القاب رائج ہیں۔ مولانا کا استعمال عرب کے علماء کے ہاں بھی قدیم عربی تاریخ میں ملتاہے۔ اگرآج وہ اس اصطلاح کو استعمال نہیں کررہے تواس کایہ مطلب نہیں کہ یہ ایرانی سازش ہے۔

نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت ایمان کا حصہ ہے اس کے بغیر ایمان مکمل ہوہی نہیں سکتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے جتنے فضائل بیان فرمائے ہیں اور ان احادیث میں آپ رضی اللہ عنہ کے لیے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں انہیں دل کی گہرائی اور ایمان کے ساتھ تسلیم کرنا ہرمسلمان کی ذمہ داری ہے، حب علی میں بغض معاویہ کی طرح حب معاویہ میں بغض علی بھی ایمان کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ کسی بات کوسازش کہنے سے پہلے قرآن وحدیث ،اپنی  اورمطلق تاریخ کا صحیح علم رکھناازحد ضروری ہے۔ایران میں علماء کے لیے جوالقاب استعمال ہوتے ہیں وہ ہمارے دیار میں قدیم وموجود زمانے میں قطعاً رائج نہیں ہیں نہ وہ ہماری مقرر کردہ اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143607200028

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں