بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قضا شدہ نمازوں کا فدیہ


سوال

میری بیوی اللہ کو پیاری ہو گئی،  شادی کے بعد نماز اور دیگر عبادات کا خوب اہتمام کیا، لیکن شادی سے پہلے کوئی خاص اہتمام نہیں تھا،  میں نے ترغیب دی توقضائے عمری کی نیت کی، لیکن موقع نہیں مل سکا،  اچانک موت واقع ہو گی۔ تقریباً دس سال کی نمازیں بقایا ہیں۔ براہِ کرم شریعت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں ادائیگی کی کیا صورت ہو گی؟

جواب

اگر مرحومہ نے نمازوں کے فدیہ کی وصیت کی ہو اور مرحومہ پر قرض نہ ہو تو ان کے متروکہ مال کے ایک تہائی سے وصیت نافذکی جائے گی، ان پر کوئی قرض ہو تو قرض کی ادائیگی کے بعد بقیہ ترکے کے ایک تہائی سے وصیت نافذ کی جائے گی۔ اور اگر وصیت نہ کی ہو تو  آپ اپنی خوش دلی سے اپنے مال سے ان کی نمازوں کا فدیہ ادا کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں، اور اللہ کی کریم ذات سے امید ہے کہ ان کے فدیہ میں وہ رقم قبول ہو جائے گی۔
بہر صورت فدیہ میں ہر نماز کے عوض ایک صدقۂ فطرکی مقدار دینا لازم ہے، یعنی ایک دن کی پانچ فرض نمازیں اور ایک وترکل ملا کر چھ نمازیں شمار کر کے جتنے سالوں کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان کا حساب لگا لیا جائے، اور غریب مستحق مسلمان کو مالک بناکردیا جائے۔

صدقۂ فطر کی مقدارگیہوں کے حساب سے ایک کلو چھ سو پینتیس  گرام آٹھ سو بہتر  ملی گرام ہوتی ہے اور مزید احتیاط کے لیے بہتر ہے کہ ایک کلو سات سو پچاس (۷۵۰)گرام دے دیا جائے، یعنی پونے دو کلو گیہوں یا اس کی قیمت دے دی جائے،اگر کو ئی اس سے زیادہ دے دے تو جائز ہے؛ البتہ واجب مقدار یہ ہی ہے اور یہ مقدار گیہوں کے حساب سے ہے اور اگر کوئی جویا کھجور دینا چاہے، تو اس کی مقدار گیہوں کی دوگنی یعنی ساڑھے تین کلو ہے۔   فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201154

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں