بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کا گوشت تقسیم کرنے کا بہتر طریقہ


سوال

آج کل ہمارے ہاں جو قربانی کرتا ہے اسے قربانی کا گوشت نہیں بھیجا جاتا، چاہے وہ رشتے دار ہو یا پڑوسی یا کوئی اور تعلق دار۔ یہ عمل کیسا ہے؟کیا بھیجنا چاہیے یا نہ بھیجنا بہتر ہے؟ کیا اس سے کسی کے حقوق تلف تو نہیں ہوتے؟ معاشرے میں کچھ لوگ اس بات کو مسئلہ بنا کر عزت کی دھجیاں اڑانے میں بھی کوئی کسرنہیں چھوڑتے(کہ فلاں نے ہمیں گوشت نہیں بھیجا)اس پر کچھ روشنی ڈالیں!

جواب

جس شخص نے قربانی کی ہے گوشت اس کی ملکیت ہے، چاہے تو سارا خود بھی استعمال کرسکتا ہے،کسی کا حق نہیں، لیکن سب سے بہتر یہ ہے کہ اس میں سے ایک حصہ غرباء میں دےدے اور ایک حصہ رشتہ داروں میں دےدے  اور ایک حصہ خود رکھے۔اگر رشتہ داروں  میں سب کو نہ دے سکے تو قریب والوں کو دےدے۔

رشتہ داروں کا اس پر باتیں بنانا  کہ ہمیں گوشت نہیں بھیجا،  بہت بری بات ہے اور یہ دوسروں کے مال پر  نظر رکھنے کے مترادف ہے۔یہ رشتہ داروں کا حق نہیں کہ مطالبہ کرکے ان کے لیے لینا جائز ہو، یا نہ ملنے پر اعتراض کیا جائے۔

'عن سلمة بن الأكوع قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: من ضحى منكم فلا يصبحنّ بعد ثالثة وبقي في بيته منه شيء، فلمّا كان العام المقبل قالوا: يا رسول الله، نفعل كما فعلنا عام الماضي؟ قال: كلوا وأطعموا وادخروا؛ فإن ذلك العام كان بالناس جهد، فأردت أن تعينوا فيها'.(صحیح البخاري:۲؍۸۳۵، رقم الحدیث:۵۵۶۹، کتاب الأضاحي، باب ما يؤكل من لحوم الأضاحي وما يتزود منها)

'والأفضل أن یتصدق بالثلث، ویتخذ الثلث ضیافة لأقربائه وأصدقائه، ویدخر الثلث، ویستحب أن یأکل منها،ولو حبس الکل لنفسه جاز'. (ردالمحتار على الدرالمختار، کراچی ۶؍۳۲۸)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202053

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں