بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قرأت میں غلطی کرنے والے امام کی اقتدا


سوال

ہمارے محلے کی مسجد کا امام مجہول قرآن پڑھتا ہے،خصوصاً {اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ} کو "اِیَّاکَ نَسْطَعِیْنُ" پڑھتا ہے،میں نے قرآن سامنے رکھ کر دکھایا کہ آپ غلط پڑھتے ہو، اس نے اقرار بھی کیا ۔اور آئندہ خیال رکھنے کا عہد کیا، مگر وہ وہی غلطی بار بار دوہرا رہا ہے۔ اس نے درستگی کی کوشش ہی نہیں کی جب کہ وہ کر سکتا تھا،میں تین بار نشان دہی کرا چکا ہوں، مگر وہ درست نہیں کر رہا۔کیا اب میں اس کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہوں؟

جواب

اس بات کا فیصلہ کرنا  کہ امام کی قرأت مجہول ہے یا نہیں؟ اور اگر مجہول ہے تو کس درجہ کی مجہول ہے؟ یہ عوام اور ہر ایرے غیرے کا کام نہیں ہے، بلکہ یہ فیصلہ کرنا ماہرِ فن یعنی ماہر مجود قاری ہی کر سکتا ہے، اس  لیے مسجد میں امام کے خلاف فتنہ کھڑا کرنا  اور انتشار پھیلانا درست نہیں ہے،  بلکہ امام صاحب کی قرأت کسی ماہر مجود قاری اور مفتی صاحب کو سنوا کر یا کسی قریبی دارالافتاء میں جاکر ان سے فیصلہ کروالیا جائے کہ امام صاحب کی قرأت کیسی ہے، اور پھر اس کے مطابق عمل کریں، جب تک کسی کی قر أت سنی نہ جائے اس کے بارے میں فتویٰ دینا ممکن نہیں ہے۔

 اصولی جواب یہ کہ قرآنِ کریم کو مجہول پڑھنا جائز نہیں ہے، مجہول پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ حرکات کو اس طرح  مبہم پڑھا جائے کہ واضح نہ ہو کہ کون سی حرکت پڑھی جا رہی ہے یا حرکات کو اِس قدر لمبا اور دراز کرکےپڑھنا  کہ حرکت سے حرف بن جائے،جیسے : زبر کو لمباکرکے الف بنادینا ، پیش کو لمباکرکے واؤ بنادینا ، اِسی طرح زیر کو دراز کرتے ہوئے یاء بنادینا ،  نماز کے اندر مجہول قرأت کرنے کا  حکم یہ ہے کہ مجہول پڑھنے سے اگر ایسی فحش غلطی ہوجائے کہ قرأت میں لحنِ جلی کا ارتکاب لازم آجائے اور معنی بدل کر بالکل فاسد ہو جائے  تو نماز بھی فاسد ہوجائے گی، ، مثلا”الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ “ کومجہول طریقے سے اِس طرح پڑھائے جائے، کہ ” الحمد“ کی دال کے بعد واؤ بڑھادیا جائے ،” لِلّٰہ“ میں لام یا ہاء کے بعد یاء بڑھادی جائے، ”ربّ“ میں راء کے بعد الف بڑھادیں، یہ سب فحش غلطیاں ہیں ، اِن سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، لہٰذا ایسی قرأت کرنے والے امام کے پیچھے نماز نہیں ہوگی، البتہ اگر مجہول پڑھنے سے قرأت میں کسی لحن جلی کا ارتکاب لازم نہ آئے اور نہ ہی معنیٰ کا فساد لازم آئے  تو نماز فاسد نہیں ہوگی، البتہ ایسی مجہول  قراء ت کرنا قرآن کے حسن و زینت کے خلاف ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے، لیکن اس طرح کی مجہول قرأت کرنے والے امام کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے، ایسے امام کو چاہیے  کہ مشق کر کے  اپنی قرأت کو درست کرنے اور خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کی کوشش کرتا رہے۔

اور ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف پڑھ لیا  اور معنی بدل گیا تو اگر ان حرفوں میں کسی مشقت کے بغیر آسانی سے فرق کیا جاسکتا ہو اور امام نے فرق نہیں کیا تو نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر ان دو حرفوں میں فرق کرنا دشوار ہو جیسے سین اور صاد  میں، ظاء اور ضاد میں، طا اور تاء میں ، تو اگر اس صورت میں قصداً  کسی نے ایسا پڑھا تو اس کی  نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر بلاقصد ایسا زبان سے نکل گیا، یا ناواقفیت کی بنا پر ان میں فرق نہیں جانتا تو نماز ہوجائے گی۔ البتہ  اگر امام اس طرح کی غلطیاں کرتا ہو تو اس کے بجائے کسی صحیح تلفظ کرنے والے امام کو امام بنانا چاہیے، مذکورہ صورت میں اگر واقعۃً امام ت کی جگہ ط ادا کرتاہے تو اس سے نماز میں کراہت آئے گی، امام کو چاہیے کہ وہ کسی مجود قاری سے مشق کرکے اپنی قرأت درست کرے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 632):
"ولو زاد كلمةً أو نقص كلمةً أو نقص حرفاً، أو قدمه أو بدله بآخر نحو من ثمره إذا أثمر واستحصد - تعالى جد ربنا - انفرجت بدل - انفجرت - إياب بدل - أواب - لم تفسد ما لم يتغير المعنى إلا ما يشق تمييزه كالضاد والظاء فأكثرهم لم يفسدها.

(قوله: إلا ما يشق إلخ) قال في الخانية والخلاصة: الأصل فيما إذا ذكر حرفاً مكان حرف وغير المعنى إن أمكن الفصل بينهما بلا مشقة تفسد، وإلا يمكن إلا بمشقة كالظاء مع الضاد المعجمتين والصاد مع السين المهملتين والطاء مع التاء قال أكثرهم: لاتفسد. اهـ. وفي خزانة الأكمل: قال القاضي أبو عاصم: إن تعمد ذلك تفسد، وإن جرى على لسانه أو لايعرف التمييز لاتفسد، وهو المختار، حلية. وفي البزازية: وهو أعدل الأقاويل، وهو المختار".

الفتاوى الهندية:

"لایجوز إمامة الألثغ الذي لایقدر علی التکلم ببعض الحروف إلا لمثله إذا لم یکن في القوم من یقدر علی التکلم بتلک الحروف، فأما إذا کان في القوم من یقدر علی التکلم بها، فسدت صلاته وصلاة القوم". (الفتاوى الهندية، کتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیره، زکریا قدیم ۱/۸۶، جدید ۱/۱۴۴)  فقط واللہ اعلم

نوٹ: محترم! اسلام ہمیں شائستگی اور ادب کا حکم دیتاہے، امامت کا منصب رفیع الشان ہے، اگر کسی امام میں کوئی کوتاہی موجود ہو تو بھی اس کے منصب کا پاس رکھتے ہوئے حکمت کے ساتھ ہی اس کی اصلاح کرنی چاہیے، آپ کے سوال کے انداز اور الفاظ سے واضح طور پر شدت محسوس ہورہی ہے، اگر امام کی قرأت میں واقعۃً تجوید  کی غلطی ہے تو بھی محبت کے انداز میں حکمت کے ساتھ فہمائش کیجیے، یا کسی صاحبِ علم سے امام صاحب کو کہلوائیے جن کی بات امام صاحب تسلیم کریں۔ 


فتوی نمبر : 144008201043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں