بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قاطع رحم اور دیوث کامطلب


سوال

ایک حدیث میں ہے کہ ’’چند آدمی جنت میں نہ جائیں گے: شرابی، ماں باپ کا نافرمان، رشتہ داروں سے بلاوجہ قطع تعلق کرنے والا، احسان جتلانے والا، جنات شیاطین یا دوسرے ذرائع سے غیب کی خبریں بتانے والا، دیوث، یعنی اپنے اہل و عیال کو بے حیائی سے نہ روکنے والا‘‘۔

ان دو کی وضاحت فرمادیں.. 1-رشتہ داروں سے بلاوجہ قطع تعلق کرنے والا- 2-دیوث، یعنی اپنے اہل و عیال کو بے حیائی سے نہ روکنے والا۔

جواب

تفصیل درج ذیل ہے:

  1. اللہ تعالیٰ نے انسان کی ذات کے  ساتھ کچھ رشتوں (والدین، اولاد، میاں بیوی، بہن بھائی، اور دیگر محارم کے رشتے وغیرہ) کو جوڑا ہے جن کے ساتھ انسان کو حسنِ سلوک کی تعلیم دی گئی ہے، رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا،  یعنی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا،  اپنی ہمت کے بقدران کامالی تعاون کرنا،ان کی خدمت کرنا، ان کی ملاقات کے لیے جاتے رہنا، وغیرہ۔  خلاصہ  یہ کہ  ان کےساتھ بہترتعلقات قائم رکھنااوران کی ہم دردی وخیرخواہی کےجذبات سے سرشار رہنا ، صلہ رحمی ہے،  جوشخص اُن کے حقوق کو پامال کرکے، بدسلوکی کا مُرتکب ہوکر تعلق ختم کرتا ہے وہ ’’قاطعِ رحم‘‘  کہلاتا ہے۔
  1. ’’دیوث‘‘  وہ شخص ہے جس کی بیوی حرام و فحش کاموں میں مبتلا ہو،شوہر  کو معلوم بھی ہو اور باوجود قدرت کے اسے نہ روکے۔

چنانچہ حدیث میں ہے:

"لایدخل الجنة دیوث، قیل: یا رسول الله! وما الدیوث؟ قال: الذي تزني امرأته وهو یعلم بها". 

’’هومن یری في أهله ما یسوؤه ولایغار علیه ولا یمنعها‘‘.
اس حدیث سے معلوم ہو اکہ جس کی بیوی حرام کاری کرتی ہو اور اس کو معلوم ہو اور باوجود قدرت کے اسے نہ روکے ایسا شخص ’’دیوث‘‘ کے حکم میں ہے۔
وفي الحدیث : (( إن رجلاً أتی النبي ﷺ فقال :یارسول الله! إن امرأتي لاتدفع ید لامس! فقال علیه السلام: طلّقها، فقال: إني أحبها وهي جمیلة، فقال علیه السلام: استمتع بها ))
وفي روایة أبي داؤد والنسائي :’’ قال: إني أحبها، قال: فأمسکها إذاً: أی فاحفظها لئلاتفعل فاحشةً‘‘، وهذا الحدیث یدل علی أن تطلیق مثل هذه المرأة أولی‘‘. ( مرقاة شرح مشکاة، ص۵۵۰ج۳)
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200099

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں