بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فریضہ جہاد کو قائم نہ کرنے کا گناہ کس پر ہے؟ جہاد کی فرضیت کی شرائط کا بیان


سوال

 اگر فرضِ عین جہاد کے لیے یہ شرط ہے کہ"جب ایک مسلمان عورت کفار کی قید میں ہو تو اس وقت تک مشرق سے مغرب تک مسلمانوں پر  جہاد فرضِ عین ہو جاتاہے جب تک اس کو آزاد نہ کرہیں"، لیکن فی الحال کفار کی قید میں ہزاروں مسلم بہنیں ہیں تو کیا ان بہنوں کو آزاد نہ کرنے والے فاسق نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو اس فاسق کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے ؟ اگر جائز تو اس عبارت کا کیا مطلب ہے کہ " لایکُوْن لِلْمُوْمِنینَ أمِیر ولا إمام؟

جواب

چوں کہ  جہاد کا مقصودِ اصلی  رسوم و قواعدِ کفریہ کو محو کر کے اعزازِ اسلام اور اعلاءِ کلمۃ اللہ ہے، اسلام اور مسلمانوں کی ذلت اور حقارت کسی صورت قابلِ برداشت نہیں ہے، اس لیے فقہاءِ کرام نے  جہاد کے واجب ہونے کی چند شرائط بیان کی ہیں:

۱)مسلمانوں کی تعداد اتنی کثیر ہو جس سے شان و شوکت پیدا ہو۔

۲)پوری جماعت کے مصارف بھی مہیا ہوں۔

۳)مسلمانوں کی جماعت کا کوئی ایساامیر ہو جو ان کی قوت کو ایک مرکز پر جمع رکھ سکتا ہو، اور یہ شرط جہاد کے لیے بمنزلہ روح کے ہے۔

۳)مسلمانوں کا کوئی ایسا مامون و محفوظ مرکز بھی ہو ،جہاں کفار کے شر سے نجات حاصل ہوجائے اور بوقتِ ضرورت  وہاں پناہ حاصل کی جاسکے۔

۴)مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہونے کی امید ہو، اگر غالب گمان ہو کہ کفار غالب اور مسلمان مغلوب ہوجائیں گے تو پھر جہاد فرضِ عین  نہیں ہوگا۔ مستفاد از (فتاویٰ عبد الحئی ، ص: ۲۶۱  )اور( اسلام اورسیاست، ص: ۱۴۱)

البتہ جس ملک پر کفار حملہ کردیں تو وہاں والوں پر جہاد فرضِ عین ہوجاتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے خلاف جہاد کرنے کی تمام شرائط کو پورا کرنا اور ان سے مسلمان قیدیوں کو چھڑانا  مسلمان ممالک کے سربراہوں کی ذمہ داری ہے، نہ کہ مساجد کے ائمہ کی، چنانچہ مسلمان ممالک کے سربراہان جو باوجود قدرت کے جہاد جیسے اہم فریضہ میں کوتاہی برتتے ہیں وہ فاسق اور گناہ گار ہیں، البتہ سربراہانِ مملکت کی غفلت اور کوتاہی کی بنا پر  جہاد نہ ہونے کی وجہ سے عام مسلمان اور  مساجد کے ائمہ فاسق نہیں ہوئے ہیں اور   مساجد کے ائمہ کے پیچھے نماز پڑھنا بلا کراہت  جائز ہے ۔

باقی سوال کے آخر میں جو عبارت ذکر کی گئی ہے اس کا کوئی حوالہ مذکور نہیں ہے، اگر اس عبارت کا حوالہ دے دیا جائے تو پھر سیاق و سباق کو دیکھ کر اس پر تبصرہ کیا جاسکتا ہے۔

الفتاوى الهندية (2/ 188):

"(وأما شرط إباحته) فشيئان: أحدهما: امتناع العدو عن قبول ما دعي إليه من الدين الحق، وعدم الأمان والعهد بيننا وبينهم، والثاني أن يرجو الشوكة والقوة لأهل الإسلام باجتهاده أو باجتهاد من يعتقد في اجتهاده ورأيه وإن كان لايرجو القوة والشوكة للمسلمين في القتال، فإنه لايحل له القتال؛ لما فيه من إلقاء نفسه في التهلكة".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 127):

"(ولا بد) لفرضيته (من) قيد آخر وهو (الاستطاعة) فلايخرج المريض الدنف، أما من يقدر على الخروج، دون الدفع ينبغي أن يخرج لتكثير السواد إرهاباً فتح. وفي السراج وشرط لوجوبه: القدرة على السلاح لا أمن الطريق، فإن علم أنه إذا حارب قتل وإن لم يحارب أسر لم يلزمه القتال.

 (قوله: وشرط لوجوبه القدرة على السلاح) أي وعلى القتال وملك الزاد والراحلة كما في قاضي خان وغيره قهستاني. وقدمنا عنه اشتراط العلم أيضاً (قوله: لا أمن الطريق) أي من قطاع أو محاربين، فيخرجون إلى النفير، ويقاتلون بطريقهم أيضاً حيث أمكن وإلا سقط الوجوب؛ لأن الطاعة بحسب الطاقة، تأمل.

مطلب إذا علم أنه يقتل يجوز له أن يقاتل بشرط أن ينكي فيهم وإلا فلا بخلاف الأمر بالمعروف (قوله: لم يلزمه القتال) يشير إلى أنه لو قاتل حتى قتل جاز، لكن ذكر في شرح السير أنه لا بأس أن يحمل الرجل وحده وإن ظن أنه يقتل إذا كان يصنع شيئا بقتل أو بجرح أو بهزم فقد فعل ذلك جماعة من الصحابة بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم أحد ومدحهم على ذلك، فأما إذا علم أنه لاينكي فيهم فإنه لايحل له أن يحمل عليهم؛ لأنه لايحصل بحملته شيء من إعزاز الدين، بخلاف نهي فسقة المسلمين عن منكر إذا علم أنهم لايمتنعون بل يقتلونه فإنه لا بأس بالإقدام، وإن رخص له السكوت؛ لأن المسلمين يعتقدون ما يأمرهم به فلا بد أن يكون فعله مؤثراً في باطنهم بخلاف الكفار".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 78):

"(قوله: وفرض عين إن هجم العدو فتخرج المرأة، والعبد بلا إذن زوجها وسيده) ؛ لأن المقصود عند ذلك لا يحصل إلا بالإقامة الكل فيفترض على الكل فرض عين فلا يظهر ملك اليمين ورق النكاح في حقه كما في الصلاة، والصوم بخلاف ما قبل ذلك؛ لأن بغيرهما مقنعاً ولا ضرورة إلى إبطال حق المولى، والزوج وأفاد خروج الولد بغير إذن، والديه بالأولى وكذا الغريم يخرج إذا صار فرض عين بغير إذن دائنه وأن الزوج، والمولى إذا منعا أثماً، كذا في الذخيرة. ولا بد من قيد آخر وهو الاستطاعة في كونه فرض عين، فخرج المريض المدنف، أما الذي يقدر على الخروج دون الدفع ينبغي أن يخرج لتكثير السواد؛ لأن فيه إرهاباً، كذا في فتح القدير".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 145):

"قال في الملتقى: وينبغي للإمام أن يعرض الجيش عند دخول دار الحرب ليعلم الفارس من الراجل قال  في شرحه: وأن يكتب أسماءهم وأن يؤمر عليهم من كان بصيراً بأمور الحرب وتدبيرها ولو من الموالي وعليهم طاعته؛ لأن مخالفة الأمير حرام إلا إذ اتفق الأكثر أنه ضرر فيتبع. اهـ".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7/ 99):

"منها: أن يؤمر عليهم أميراً؛ لأن النبي عليه الصلاة والسلام ما بعث جيشاً إلا وأمر عليهم أميراً، ولأن الحاجة إلى الأمير ماسة؛ لأنه لا بد من تنفيذ الأحكام وسياسة الرعية، ولايقوم ذلك إلا بالأمير لتعذر الرجوع في كل حادثة إلى الإمام".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200850

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں