بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا


سوال

1۔۔ہر فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کا التزام کرنا  کیسا ہے؟

2۔۔ اور نہ کرنے والے پر سب شتم کرنا کیسا ہے؟

3۔۔  اور امام یا مقتدی اگر دعا کے بغیر چلا جائے تو کیا گناہ گار ہوگا یا نہیں؟

جواب

1/2۔۔ فرض نماز کے بعد دعا کرنا ثابت ہے اور  فرض نمازوں کے بعد کے اوقات حدیث شریف کے مطابق قبولیتِ دعاکے اوقات ہیں،اور دعا کے آداب میں سے ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے  اور آں حضرت ﷺ سے بھی  دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔

"المعجم الکبیر " میں  علامہ طبرانی رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی سے ایک روایت ذکر کی ہے کہ  محمد بن یحیی اسلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن  زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا  ،انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ  وہ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی ہاتھ اٹھا کر دعا کررہا تھا ، جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو  حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب تک نماز سے فارغ نہ ہوتے  اس وقت تک (دعا کے لیے) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ( لہذا تم بھی ایسا ہی کرو)۔

"حدثنا محمد بن أبي يحيى، قال: رأيت عبد الله بن الزبير ورأى رجلاً رافعاً يديه بدعوات قبل أن يفرغ من صلاته، فلما فرغ منها، قال: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يرفع يديه حتى يفرغ من صلاته»". (المعجم الكبير للطبرانی 13/ 129، برقم: 324)

لہذا فرض نمازوں کے بعدہاتھ اٹھاکراجتماعی  طور پر دعا جائز ہے،  نماز کے بعد دعاپر نکیر کرنا یا اسے بدعت کہنا درست نہیں، تاہم اسے سنتِ مستمرہ دائمہ کہنا مشکل ہے،اس بنا پراس کو ضروری اورلازم سمجھ کر کرنا،اورنہ کرنے والوں پرطعن وتشنیع کرنا بھی درست نہیں۔ اور یہ دعا سر اً افضل ہے، البتہ تعلیم کی غرض سے  کبھی کبھار امام  جہراً بھی دعا کرا سکتا ہے۔ اور جب اس کا استحباب ثابت ہے تو اسے ترک پر اصرار کرنا بھی درست نہیں ہے، شریعت کا حکم جس درجے میں ثابت ہو اُسے وہ درجہ دینا چاہیے۔ 

حضرت علامہ محمدانورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے "فیض الباری" میں اور محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نوراللہ مرقدہ نے اپنے فتاویٰ میں لکھاہے کہ فرائض کے بعد موجودہ ہیئت کے مطابق اجتماعی دعا کرنا سنتِ مستمرہ تو نہیں ہے، لیکن اس کی اصل ثابت ہے ؛ اس لیے یہ بدعت  نہیں ہے، اسے بدعت کہنا غلو ہے۔

اس مسئلہ میں اکابر علماءِ کرام نے خوب تحقیق و عرق ریزی کے بعد تفصیلی رسائل تحریر کیے ہیں جن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وصحابہ کا معمول نقل کیا ہے؛ دیکھیے:

"استحباب الدعوات عقيب الصلوة"  مؤلف:حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ.

"النفائس المرغوبة في حكم الدعاء بعد المكتوبة" مؤلف: حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ (مفتی اعظم ہند)

"التحفة المرغوبة في أفضلية الدعاء بعد المكتوبة" مؤلف: حضرت مولانا مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی رحمہ اللہ۔

3۔۔ گناہ گار  تو نہیں ہوگا، البتہ مستقل اس کا معمول نہیں بنانا چاہیے۔فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200346

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں