بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

علماء کا رمضان ٹرانسمیشن جیسے پروگراموں کے ساتھ معاونت اور شرکت کرنا کیسا ہے


سوال

ہ آج کل رمضان المبارک میں مختلف ٹی وی چینل سحری و افطاری کے وقت دینی پروگراموں کی ٹرانسمیشن کرتے ہیں . تو اگر ایسے ہی ایک ٹی وی چینل سحری کے وقت ایک دینی پروگرام چلائے جس میں وہ عوام کو دینی مسائل اور معلومات دیں اور ان مسائل و معلومات کی تصحيح کسی عالم دین سے کروائیں تو کیا اس عالم دین کے لیے یہ کام کرنا صحیح ہے اور اس کے شایانِ شان ہے ؟ واضح رہے کہ عالم دین کو کیمرے / ٹی وی پر نہیں آنا ہوگا. بلکہ پروگرام شروع ہونے سے پہلے ہی اس کو پروگرام کا دینی مواد جو وہ عوام کے سامنے پیش کریں گے اس کا مسودہ اس عالم دین کو دیا جائے گا تاکہ وہ اس کی تصحیح کردے اور اگر کوئی غلط بات ہو تو اس کی نشاندہی کردے اور عالم دین کو اس کام کے لیے پیسے بهی ملیں گے . مگر یہ بات ذہن میں رہے کہ پروگرام پیش کرنے والا میزبان کوئی عام آدمی / ٹی وی ایکٹر ہوگا. پاکستان کے ایک ٹی وی چینل \\"اے آر وائی\\" کا یہی طریقہ کار ہے. میرے حلقۂ احباب میں دو عالم دین ہیں. ایک اس کام کو ناجائز کہہ رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ عالم کے لیے جائز نہیں اور اگر جائز ہو بهی تو بهی اس کی شان کے مناسب نہیں کہ وہ برائی کے گڑھ میں جائے اور بے دین طبقے کی ہمت افزائی ہو کہ ایک عالم نے آکر ان کے پروگرام کے لیے اپنی خدمات فراہم کیں. دوسری بات یہ کہ یہ جائز بهی نہیں ہے کہ ایک عام آدمی جو کہ ایکٹر ہو، فاسق فاجر ہو ، دن بهر ڈرامہ اور فلم کے لیے کام کرتا ہو وہ دین کے مسائل اور معلومات بیان کرے اور ان پر بحث کرے . تیسری خرابی اس میں یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ وہاں مخلوط پروگرام ہو یا تماشائی مخلوط ہوں اور اس میں دین کی بات کی جائے. چوتهی بات یہ کہ گناہ اور برائی کے اڈے سے دین کی ترویج نہیں ہوسکتی اگرچہ بظاہر ہوتی ہو. اور کیا حق طریقے دین کی اشاعت کے لیے ختم ہوگئے ہیں جو عالم کو ٹی وی والوں کے لیے اپنی خدمات دینی پڑ رہی ہیں؟ . چوتها مسئلہ یہ ہے کہ اگر جائز بهی ہو اور عالم دین چلا جائے تو کل کو جب عام لوگوں کو پتا چلے گا کہ ایک عالم آکر ٹی وی چینل والوں کی تصدیق کرتا ہے تو ان کا اعتماد ٹی وی والوں پر بڑهے گا اور پهر عوام ان کی ہر بات اس بنیاد پر قبول کرنے لگیں گے جس کا غلط فائدہ بهی کل کو یہ ٹی وی والے اٹها سکتے ہیں (اور اکثر علماء کو شروع میں اسی طرح سے استعمال کیا جاتا ہے.) سو اس طرح ایک عالم ٹی وی والوں کی ہمت افزائی کا ذریعہ بنےگا کہ ٹی وی پر نام نہاد دینی پروگرام کرنا صحیح ہے چاہے وہ کئی گناہوں کا مجموعہ اور ذریعہ ہی کیوں نہ بن رہا ہو. تو ان خرابیوں کو سامنے رکهتے ہوئے ایک عالم کا وہاں جانا مناسب معلوم نہیں ہوتا. دوسرے عالم جو جائز بتا رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر نہیں جائیں تو وہ کسی بریلوی یا اہل حدیث یا اور کسی غلط آدمی کو بلا لیں گے جس سے لوگوں تک غلط باتیں پہنچ جائیں گی اس لیے جانا ضروری ہے. آپ بتائیں کہ احتیاط کس کے قول میں ہے؟ اور چینل میں جانے میں اور یہ کام کرنے میں کیا فوائد ہوسکتے ہیں اور کیا مفاسد ہوسکتے ہیں؟ برائے کرم آپ وضاحت فرمائیں. جزاکم اللہ خیرا.

جواب

رمضان المبارک کامقدس اور پاکیزہ مہینہ جو کہ سراسر عبادت اور رجوع الی اللہ کا مہینہ ہے، اس مہینہ کے تقدس  کو گذشتہ چند سالوں سے ھمارے ہاں رمضان ٹرانسمیشن کا نام سے منعقد کیئے جانے والے پروگراموں سے جس طرح پامال وپراگندہ کیا جا رہا ہے،وہ کسی سے مخفی نہیں، وہ تمام برائیاں جو سائل نے ذکر کی ہیں وہ اور اس جیسی بے شمار برائیوں  کے باعث  یہ پروگرام رمضان کے تقدس بلکہ ایمان واسلام کے تقدس کی بربادی کا باعث بن رہے ہیں، ایسے میں کسی عالم دین کا ان کے ساتھ  کسی بھی قسم کی معاونت  کرنے کا مطلب ان کی تائید کرناہوگا جس کی وجہ سے لوگ ان نام نہاد دینی پروگراموں پر اندھا اعتماد کرکے اس قطعی ناجائز کام کو جائز سمجھنے لگیں گے اور اپنے دین کو برباد کریں گے، جس کی بنیاد اور کڑیاں اس عالم دین سے جاکر ملیں گی جس نے اس طرح کے پروگراموں کی تصدیق کی تھی۔  رہی یہ بات کے اگر سحیح العقیدہ علماء ان کے ساتھ تعاون نہ کریں تو یہ کام بدعقیدہ لوگ کرنے لگیں گے تو اگرچہ یہ بات کرنے والے  ”مخلصین“ کی فکر و سوچ اخلاص پر مبنی ہے، اور ان کا جذبہ صادق ہے،لیکن چونکہ ٹی وی  کی  وضع اور ساخت ہی لہو ولعب کے لئے ہے،اس لئے ان کو دینی مقاصد کے لئے استعمال کرنا نہ صرف غلط ہے، بلکہ دین کی توہین و بے حرمتی کے مترادف ہے۔ اس لئے کہ اگر شریعت مطہرہ نے شراب کے مخصوص برتن مثلاً حنتم، دباء، نقیر، مزفت کو پاک کرکے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی؛ بلکہ ان کو توڑنے کا صرف اس لئے حکم فرمایا کہ وہ شراب کی علامت اور ایک حرام مشروب کے لئے مخصوص وموضوع تھے، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد عبدالقیس کی آمد پر بطور خاص ان برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا، جیسا کہ ارشاد ہے:

                ”ونہاہم عن اربع عن الحنتم والدباء والنقیر والمزفت“ (بخاری، ص:۱۳)

”یعنی آپ نے ان کو شراب کے لئے مخصوص وموضوع چار قسم کے برتنوں: حنتم، دباء، نقیر اور مزفت کے استعمال سے منع فرمایا تھا۔“

                اگر شریعت مطہرہ اور پیغمبر اسلام نے ایک حرام و ناپاک مشروب کے لئے مخصوص برتنوں یا شراب کی علامت شمار ہونے والے ظروف کو استعمال کرنے یا ان سے نفع اٹھانے کی اجازت نہیں دی، تو ٹی وی یا اس طرح کی دوسری چیزیں جو لہو ولعب کے علاوہ کسی دوسرے مقصد کے لئے استعمال ہی نہیں ہوتیں، ان سے نفع اٹھانے کی کیونکر اجازت ہوگی؟ یا ان کے ذریعہ دعوت و تبلیغ کی اجازت کیونکر دی جاسکتی ہے؟

اسی طرح یہ منطق بھی ناقابلِ فہم ہے کہ دوسروں کو گناہ اور گمراہی سے بچانے کے لئے خود اسی گناہ اور گمراہی کی راہ اختیار کرلی جائے، جس سے دوسروں کو منع کیا جارہا تھا، کیا کوئی معمولی عقل وفہم کا انسان یہ گوارا کرسکتا ہے کہ ایک گناہ کو دور کرنے کے لئے دوسرے گناہ کا ارتکاب کیا جائے؟ جب کوئی شخص دوسرے کی زندگی بچانے کے لئے اپنی دنیاوی زندگی داؤ پر نہیں لگاسکتا تو محض اس امکان پر کہ شاید دوسرا راہِ راست پر آجائے، کیا اپنی آخرت کی دائمی زندگی برباد کی جاسکتی ہے؟ یا اس کو داؤ پر لگایا جاسکتا ہے؟ یا کوئی اس کے لئے تیار ہوگا؟ اگرکوئی عقلمند ایسا کرے تو شرعاً، اخلاقاً اس کی گنجائش ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے اوریقینا نفی میں ہے تو علماء کو اس خودکشی کا درس کیوں دیا جاتا ہے؟ اوراگر جواب اثبات میں ہے تو کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک کی چودہ صدیوں سے اس کی کوئی ایک آدھ مثال پیش کی جاسکتی ہے؟ کہ کسی نے دوسرے کی ہدایت کی خواہش پر خود گمراہی اختیار کرلی ہو،اگر ایک لمحہ کے لئے اس کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو کیا شریعت اس کی اجازت دیتی ہے؟ یا انسان اس کا مکلف ہے؟ نہیں،  ہرگز نہیں۔

ان تفصیلات کے پیش نظر ر علماء امت کی ایک قابل اعتماد جماعت کا موقف ہے اور بالکل بجا موقف ہے کہ علماء اور صلحاء امت  بالخصوص جن کو مقتداء اور پیشواہونے کا شرف حاصل ہے کو اس طرح کے پروگراموں کا کسی بھی درجہ میں حصہ بننانہ صرف یہ کہ  درست نہیں ہےبلکہ بجائے فائدہ کے نقصان کا باعث ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143710200008

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں