بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عقیقہ کب کرے؟


سوال

کیا بچوں کا عقیقہ جب اللہ تعالی توفیق دے کر لیا جاۓ?

جواب

صاحبِِ استطاعت افراد کے لیے  اپنے نومولود بچہ کا عقیقہ اس کی زندگی میں کرنا مستحب ہے، اور اس کا مستحب  وقت پیدائش کا ساتواں دن ہے، اگر ساتویں روز عقیقہ نہ کرسکے تو چودہویں روز کرلے، اور چودہویں روز نہ کیا تو اکیسویں روز کرلے، اور کسی مجبوری کے بغیر اس سے زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ سنن ترمذی میں ہے:

’’عن سمرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: الغلام مرتهن بعقيقته، يذبح عنه يوم السابع، و يسمي و يحلق رأسه. قال الإمام الترمذي: و العمل علي هذا عند أهل العلم، يستحبون أن يذبح عن الغلام يوم السابع، فإن لم يتهيأ يوم السابع فيوم الرابع عشر، فإن لم يتهيأ عق عنه يوم إحدي و عشرين‘‘. (أبواب الأضاحي، باب ما جاء في العقيقة، ١/ ٢٧٨، ط: سعيد) 

اور اگر مذکورہ دنوں میں استطاعت نہ ہو تو بعد میں جب استطاعت ہوجائے، عقیقہ کرلے۔

'' بچہ کی عمر ایک سال سے زائد ہوجائے تب بھی عقیقہ کرسکتے ہیں''۔ (بہشتی زیور ۳؍۴۲-۴۳)
"عن الحسن البصري: إذا لم یُعقّ عنک، فعقِّ عن نفسک وإن کنت رجلاً". (إعلاء السنن، کتاب الذبائح ، باب أفضلیة ذبح الشاة في العقیقة ۱۷؍۱۲۱ إدارة القرآن کراچی)
" فنقل الرافعي أنه یدخل وقتها بالولادة … ثم قال: والاختیار أن لا تؤخر عن البلوغ، فإن أخرت عن البلوغ سقطت عمن کان یرید أن یعق عنه، لکن إن أراد أن یعق عن نفسه فعل". (فتح الباري، کتاب العقیقة ، باب إماتة الأذی عن الصبي في العقیقة، ۹؍۵۹۴-۵۹۵ دار المعرفة بیروت)
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200601

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں