بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عشق مجازی سے عشق حقیقی کا حصول


سوال

اگر عشقِ مجازی ہو جاۓ اور عشقِ مجازی کی وجہ سے عشقِ حقیقی بھی ہو جاۓ تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟

جواب

بعض اکابر سے جو اس طرح کی بات منقول ہے کہ عشقِ مجازی میں مبتلا ہونے والے شخص کو عشقِ حقیقی کی طرف لانا آسان ہوتاہے، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ عشقِ مجازی عشقِ حقیقی کے حصول کا سبب ہے اور اس کے لیے اپنے اختیار سے عشقِ مجازی کے اسبابِ ممنوعہ اختیار کیے جائیں۔ بلکہ جو روحانی بیمار غیر اختیاری طور پر عشقِ مجازی میں مبتلا ہونے کے بعد اہلِ دل کے پاس اپنی اصلاح کے لیے جائے اس  کے روحانی علاج میں سہولت ہوجاتی ہے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ عشقِ خداوندی عشقِ مجازی کے مرحلے سے گزرے بغیر بھی ہوتاہے، اور مطلوب بھی یہی ہے، انبیاءِ کرام علیہم السلام اور اولیاءِ عظام رحمہم اللہ کو عشقِ خداوندی کا کمال حاصل ہوتاہے، جب کہ اس دنیا یا دنیا کی کسی شے سے انہیں قلبی لگاؤ نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ نادانی ہوگی کہ عشقِ مجازی کے اسبابِ ممنوعہ اس لیے اختیار کیے جائیں کہ یہ عشقِ حقیقی کا سبب ہوگا، اور یہ نفس کا دھوکا ہے کہ عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی حاصل ہوگیا ہے۔ عشقِ مجازی اور حقیقی دونوں  جمع نہیں ہوسکتے، اگر عشقِ حقیقی (اللہ تعالی سے محبت)حاصل ہوگیا  تو وہ تمام عشقِ مجازی کا خاتمہ کردے گا، آپ کو چاہیے کہ کسی متبعِ شریعت، صاحبِ نسبت اللہ والے سے مستقل اصلاحی تعلق قائم کرکے اصلاح لیتے رہیں۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200759

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں