بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عشر کی حیثیت اور اس کا مصرف


سوال

عشر ادا کرنے کی کیا شرح  ہے؟  اور عشر کے مستحقین کون ہیں؟  کیا حکومتِ وقت کو بھی عشر دیا جا سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ زمین سے جو غلہ نکلتا ہے اس کا عشر ادا کرنا ضروری ہوتا ہے، البتہ زمین کی اس پیداوار میں عشر  واجب ہوتا ہے جس سے آمدنی حاصل کرنا یا  پیداوار سے فائدہ اٹھانا مقصود ہو، اور اسی نیت سے اس کو لگایا جائے، اور جو اشیاء خود ہی بغیر قصد کے تبعاً حاصل ہوجائیں ان میں عشر لازم نہیں ہوتا۔

''بدائع الصنائع ''  میں ہے:

"ومنها: أن يكون الخارج من الأرض مما يقصد بزراعته نماء الأرض وتستغل الأرض به عادةً، فلا عشر في الحطب والحشيش والقصب الفارسي؛ لأن هذه الأشياء لا تستنمى بها الأرض ولا تستغل بها عادة؛ لأن الأرض لا تنمو بها، بل تفسد، فلم تكن نماء الأرض، حتى قالوا في الأرض: إذا اتخذها مقصبةً وفي شجره الخلاف، التي تقطع في كل ثلاث سنين، أو أربع سنين أنه يجب فيها العشر؛ لأن ذلك غلة وافرة". (2 / 58، فصل الشرائط المحلیة ط: سعید)

عشر کے باب میں کوئی حد مقرر نہیں ہے،  پیداوار کم ہو یا زیادہ، دونوں صورتوں میں پیداوار پر عشر لازم ہو گا۔ پھر اگر وہ زمین سال کے اکثر حصے میں قدرتی آبی وسائل (بارش، ندی، چشمہ وغیرہ) سے سیراب کی جائے تو اس میں عشر یعنی کل پیداوار کا دسواں حصہ واجب ہو گا، اور اگر وہ زمین مصنوعی آب رسانی کے آلات و وسائل مثلاً: ٹیوب ویل یا خریدے ہوئے پانی سے سیراب کی جائے تو اس میں نصف عشر یعنی کل پیداوار کا بیسواں حصہ واجب ہو گا۔

نیز واضح رہے کہ کھیتی کی تیاری میں جو اخراجات ہوتے ہیں، مثلاً: آب رسانی، مزدوری، کھاد وغیرہ انہیں آمدنی سے منہا نہیں کیا جائے گا، بلکہ مجموعی پیداوار میں سے عشر نکالنا ضروری ہو گا۔

عشر کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ  کا مصرف ہے، یعنی جس شخص کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی مقدار ضروریاتِ اصلیہ سے زائد مال یا سامان نہیں ہے، ایسے شخص کو عشر دیا جا سکتا ہے۔

اگر حکومت کا کوئی ایسا ادارہ ہے جو عشر کو امانت کے ساتھ متذکرہ بالا مصرف تک پہنچا دے تو اس ادارے کو عشر دیا جا سکتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو حکومت کو عشر دینا بھی جائز نہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں