بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طویل مدتی کرایہ داری، 99 سالہ لیزنگ اور پگڑی میں حق میراث


سوال

طویل مدتی کرایہ داری میں میراث جاری ہوں گے یا نہیں؟

’’کتاب المسائل‘‘ از مفتی سلمان منصورپوری دامت برکاتہم اور فتاوی قاسمیہ از مفتی شبیراحمد قاسمی دامت برکاتہم میں اس حقِ کرایہ داری کو شبہِ ملک قرار دے کر میراث جاری کیے ہیں.براہِ کرم ادارہ  کی تحقیق سے مطمئن فرمائیں!

جواب

مکانات اور زمینوں کا کرایہ پر دینا جائز ہے، اور اس کی صحیح ہونے کی من جملہ شرائط میں سے یہ ہے کہ اجرت متعین ہو ، اور مدت  بھی متعین ہو کہ کتنی مدت تک کرایہ پر دیا جارہا ہے، خواہ مدت کم ہو یا زیادہ ، اگر  مدت معلوم نہ ہو تو شرعاً ایسا معاملہ فاسد ہوگا، اور پھر یہ معاملہ مدتِ اجارہ ختم ہونے سے یا کرایہ دار کی  موت واقع ہونے سے ختم ہوجاتا ہے، تمام کتبِ فقہ میں یہ بات صراحتاً منقول ہے،  اور یہ مکان یا دکان بدستور مالک ہی کی ملکیت میں برقرار رہتا ہے، اس میں کرایہ دار کے حق کو   شبہِ ملک قرار دے کر  کرایہ دار کے ورثاء میں یہ حق منتقل کرنا شرعاً درست نہیں ہے، ہاں مالک کی اجازت سے از سر نو معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

کرایہ داری کے نام سے دو اور صورتیں بھی ہیں:

(1) مروجہ 99 سالہ لیزنگ کا قانون (2) مروجہ پگڑی سسٹم

1۔۔  مروجہ 99 سالہ لیزنگ کا  قانون ،  جسے اگرچہ لیز  یعنی  ”کرایہ داری“ سے موسوم کیا جاتا ہے، لیکن  چوں کہ قانون کی رو سے مروجہ لیز پر زمین لینے والے شخص کو  اس زمین کی خریدوفروخت  وغیرہ سے متعلق مکمل اختیارات حاصل ہوتے ہیں، اور تمام مالکانہ  حقوق حاصل ہوتے ہیں، البتہ لیز کی مدت مکمل ہونے کے بعد دوبارہ لیز کروانی پڑتی ہے، اس لیے مروجہ لیز کے معاملات پر شرعاََ  بیع و شراء کے احکامات جاری ہوں گے، یعنی  99 سالہ لیز پر زمین لینے والا شخص  شرعاً اس زمین کا مالک ہوگا، اور اس شخص کے انتقال کے بعد  ایسی زمین مرحوم کے شرعی ورثاء میں   تقسیم ہوگی۔

2۔۔ مروجہ پگڑی کا  معاملہ شرعاً درست نہیں ہے، اس لیے کہ پگڑی    نہ تو مکمل   خرید وفروخت کا معاملہ ہے، اور نہ ہی مکمل اجارہ(کرایہ داری) ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کا  ایک  ملا جلامعاملہ ہے، پگڑی پر لیا گیا مکان بدستور مالک کی ملکیت میں برقرار رہتا ہے،لہذا پگڑی کا لین دین شرعاً جائز نہیں ہے، ایسے معاملہ کو جتنا جلدی ہوسکے ختم کرکے اونر شپ   کا معاملہ کرلینا چاہیے  یا طویل مدت کے لیے کرایہ داری کا معاملہ کرلینا چاہیے۔

پگڑی پر لیا جانا والا مکان تو مالک کی ملکیت میں ہوتا ہے، البتہ اس پگڑی کی مد میں دی جانے والی رقم پگڑی پر لینے والے شخص ہی کی ملکیت ہوتی ہے، جب پگڑی پر لینے والا شخص مکان اس کے مالک کو واپس کرے گا تو اس کو وہ رقم واپس مل جائے گی، اب اگر  اس شخص نے خود   پگڑی کے فلیٹ میں کوئی کام کروایا ہو  ، مثلاً لکڑی، ٹائلز یا   پنکھا ، بتی وغیرہ لگائے، یا  دیگر تعمیراتی کام کروایا  تو ایسی صورت  میں  وہ شخص اس فلیٹ کو پگڑی پر دی گئی رقم سے زائد  میں بھی فروخت کرسکتاہے، اور اگر کوئی کام نہیں کروایا  تھا  تو اس فلیٹ کا قبضہ ختم  کرنے کے لیے اضافی رقم لینا یا کسی اور سے  زائد رقم لے کر پگڑی پر دینا درست نہیں ہوگا۔

جس صورت میں پگڑی پر لینے والے شخص نے پگڑی کے مکان میں کچھ کام وغیرہ کروایا جس کی تفصیل پیچھے گزری  تو اس صورت میں اگر اس کا انتقال ہوجاتا ہے تو اب اس کے ورثاء اس پگڑی کے مکان کو مالک کو  یا کسی اورشخص  کو  باہمی رضامندی سے  ایک مقرر قیمت پر فروخت کرکے اس سے حاصل ہونے والی رقم  میں اپنے اپنے حصص کے تناسب سے شریک ہوں گے، اور اگر کوئی کام نہیں کروایا تو پگڑی پر دی جانے والی اصل رقم میں حق دار ہوں گے، باقی پگڑی کے نفس مکان میں میراث جاری نہیں ہوگی۔

الفتاوى الهندية (4/ 411):
"وأما شرائط الصحة، فمنها: رضا المتعاقدين. ومنها: أن يكون المعقود عليه وهو المنفعة معلوماً علماً يمنع المنازعة فإن كان مجهولاً جهالةً مفضيةً إلى المنازعة يمنع صحة العقد وإلا فلا. ومنها: بيان محل المنفعة حتى لو قال: آجرتك إحدى هاتين الدارين أو أحد هذين العبدين، أو: استأجرت أحد هذين الصانعين لم يصح العقد. ومنها: بيان المدة في الدور والمنازل والحوانيت وفي استئجار الظئر".

 البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 41):
"قال - رحمه الله - : (وتفسخ بموت أحد المتعاقدين إن عقدها لنفسه) قال الشارح: وفيه إشارة إلى أنه لايحتاج إلى حكم الحاكم. اهـ.
والظاهر أن فيه إشارة إليه قال في المفيد والمزيد: وقال بعضهم: لا لكن يرفع الأمر إلى القاضي ويقضي بالفسخ ولايحتاج في ذلك إلى دعوى، وللعلماء في ذلك طريقان: أحدهما: أن يرفع الأمر إلى القاضي بالفسخ، الثانية: أن يبيع العين المؤجرة ويحكم القاضي فيها بالصحة وانفساخ الأولى وهي طريقة ما وراء النهر، وقال الشافعي: لاتبطل بموت أحدهما. ولنا أن العقد ينعقد ساعة فساعة حسب حدوث المنفعة فإذا مات المؤجر انتقل الملك إلى الوارث ومنفعته إليه والمنافع المستحقة بالعقد هي المملوكة للمؤجر، وقد فات بموته فتنفسخ قال في العتابية ونوقض بما إذا استأجر دابة إلى مكان معين فمات صاحب الدابة وسط الطريق كان للمستأجر أن يركبها إلى المكان المسمى، وقد مات أحدهما أو عقدها لنفسه وأجبت بأن ذلك للضرورة وأنه يخاف على نفسه وماله حيث لايجد دابةً أخرى في وسط المفازة ولايكون ثمة قاض يرفع الأمر إليه حتى قال بعض مشايخنا: إن وجد ثمة دابةً أخرى يحمل عليها متاعه ينتقض أو وجد قاض ينتقض. اهـ".

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 144):
"(وتنفسخ بموت أحد المتعاقدين إن عقدها لنفسه)، وقال الشافعي: لاتبطل بموت أحدهما ولا بموتهما؛ لأن المنافع عنده كالأعيان القائمة فكما لاتبطل في العين لاتبطل فيها. ولنا أن العقد ينعقد ساعةً فساعةً بحسب حدوث المنافع، فإذا مات المؤجر فالمنافع التي تستحق بالعقد هي التي تحدث على ملكه، وقد فات بموته فتبطل الإجارة لفوات المعقود عليه؛ لأن رقبة العين تنتقل إلى الوارث، والمنفعة تحدث على ملكه فلم يكن هو عاقداً ولا راضياً به وإذا مات المستأجر فلو بقي العقد إنما يبقى على أن يخلفه وارثه والمنفعة المجردة لاتورث".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 31):
"(ولو استأجر أرض وقف وغرس فيها) وبنى (ثم مضت مدة الإجارة فللمستأجر استيفاؤها بأجر المثل إذا لم يكن في ذلك ضرر) بالوقف. 

(قوله: ولو استأجر أرض وقف) قيد بالوقف، لما في الخيرية عن حاوي الزاهدي عن الأسرار من قوله: بخلاف ما إذا استأجر أرضاً ملكاً ليس للمستأجر أن يستبقيها كذلك إن أبى المالك إلا القلع بل يكلفه على ذلك إلا إذا كانت قيمة الغراس أكثر من قيمة الأرض فيضمن المستأجر قيمة الأرض للمالك فيكون الإغراس والأرض للغارس، وفي العكس يضمن المالك قيمة الإغراس فتكون الأرض والأشجار له، وكذا الحكم في العارية اهـ. (قوله: وبنى) الواو بمعنى أو ط. (قوله: كذا في القنية) الإشارة لجميع ما ذكره المصنف، وأفتى به في الخيرية قائلاً وأنت على علم أن الشرع يأبى الضرر خصوصاً والناس على هذا، وفي القلع ضرر عليهم وفي الحديث الشريف عن النبي المختار «لا ضرر ولا ضرار» اهـ وأفتى به في الحامدية، لكنه في الخيرية أفتى في موضع آخر بخلافه وقال: يقلع وتسلم الأرض لناظر الوقف كما صرحت به المتون قاطبة اهـ.
أقول: وحيث كان مخالفاً للمتون فكيف يسوغ الإفتاء به مع أنه من كلام القنية، ولايعمل بما فيها إذا خالف غيره كما صرح به ابن وهبان وغيره، وما في المتون قد أقره الشراح وأصحاب الفتاوى، وإنما اختلفوا في تملك المؤجر البناء والغرس جبراً على المستأجر كما مر، وحيث قدم ما في الشروح على ما اتفق عليه أصحاب الفتاوى في تلك المسألة، فما اتفق عليه الكل أولى بالتقديم، فليت المصنف لم يذكره في متنه".

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وأما حكمه فثبوت الملك في المبيع للمشتري وفي الثمن للبائع إذا كان البيع باتاً وإن كان موقوفاً فثبوت الملك فيهما عند الإجازة كذا في محيط السرخسي". (3 / 3، الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، ط: رشیدیه)

شرح المجلہ میں ہے:

" کل یتصرف في ملکه کیف شاء".  (4/132، مادہ:1192،  الفصل الاول فی بیان بعض قواعد  فی احکام الاملاک، ط: رشیدیہ)

        فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة، وعلى هذا لايجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف.

(قوله: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لاتحتمل التمليك ولايجوز الصلح عنها". (4 / 518، کتاب البیوع،  ط: سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

" ولو أجرها المستأجر بأكثر من الأجرة الأولى فإن كانت الثانية من خلاف جنس الأولى طابت له الزيادة، وإن كانت من جنس الأولى لاتطيب له حتى يزيد في الدار زيادة من بناء أو حفر أو تطيين أو تجصيص". (4/ 206، کتاب الاجارۃ،  فصل فی حکم الاجارۃ، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201194

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں