بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

’’طلحہ رحمٰن‘‘ نام رکھنے کا حکم


سوال

 میرے نام طَلْحَهْ رَحْمٰنْ کا معنیٰ تفصیلًا بتا دیجیے!

جواب

عربی میں ’’طلحہ‘‘ ایک خاص قسم کے درخت کا نام ہے، اس کے علاوہ اس کا ایک معنیٰ ’’ کیلا‘‘ (پھل) بھی آتا ہے، ’’طلحہ‘‘ ایک بہت بڑے جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ کا نام ہے، جنہوں نے غزوہ احد میں حضور ﷺ کی حفاظت کے لیے بڑی جانثاری کا مظاہرہ کیا تھا، اور آپ ﷺ نے ان کے لیے جنت واجب ہونے کی بشارت دی تھی، نیز یہ ان دس صحابہ کرام میں سے بھی ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے ایک مجلس میں جنت کی بشارت دی، جنہیں عشرہ مبشرہ کہا جاتاہے، اور کسی نام کی فضیلت کے لیے یہ بات ہی کافی ہوتی ہے کہ وہ کسی صحابی کا نام ہے، اس لیے کسی صحابی کا نام رکھتے ہوئے معنیٰ دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

آپ کے نام کا پہلا جز تو درست بلکہ باعثِ برکت ہے۔

لیکن دوسرا جز ’’رحمٰن‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کا نام ہے، اور لفظ ’’رحمٰن ‘‘ سے پہلے لفظ ’’عبد‘‘ لگائے بغیر کسی کے لیے یہ نام رکھنا جائز نہیں ہے، یعنی عبدالرحمٰن نام رکھنا جائز ہے، صرف رحمٰن نام رکھنا جائز نہیں ہے۔

تاج العروس (6/ 579):

"(الطلح) بفتح فسكون: (شجر عظام) ، حجازية، جناتها كجناة السمرة. ولها شوك أحجن، ومنابتها بطون الأودية، وهي أعظم العضاه شوكا وأصلبها عودا وأجودها صمغا. وقال الأزهري: قال الليث: الطلح: شجر أم غيلان، ووصفه بهاذه الصفة، وقال: قال ابن شميل: الطلح: شجرة طويلة، لها ظل يستظل بها الناس والإبل، وورقها قليل، ولها أغصان طوال عظام، ولها شوك كثير من سلاء النخل، ولها ساق عظيمة لا تلتقي عليه يد الرجل، وهي أم غيلان، تنبت في الجبل، الواحدة طلحة. وقال أبو حنيفة: الطلح: أعظم العضاه، وأكثره ورقا، وأشده خضرة، وله شوك ضخام طوال، وشوكه من أقل الشوك أذى، وليس لشوكته حرارة في الرجل، وله برمة طيبة الريح، وليس في العضاه أكثر صمغا منه ولا أضخم، ولا ينبت إلا في أرض غليظة شديدة خصبة. واحدتها طلحة. وبها سمي الرجل".

مختار الصحاح (ص: 191):

"(الطلح) بوزن الطلع شجر عظام من شجر العضاه، الواحدة (طلحة) و (الطلح) أيضا لغة في الطلع. قلت: جمهور المفسرين على أن المراد من الطلح في القرآن الموز".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200903

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں