بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی دوسرے ملک میں ہوتو طلاق واقع ہوسکتی ہے


سوال

میں اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہوں، لیکن میں دوبئی میں رہتا ہوں،  یہاں سے کیسے میں طلاق دے سکتا ہوں جب کہ میری بیوی پاکستان رہتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بغیر شرعی عذر کے بیوی کو طلاق دینا اللہ کو ناپسند ہے؛  لہذا دین دار تجربہ کار لوگوں سے صورتِ حال کا مشورہ کیے بغیر طلاق دینے سے گریز کیا جائے۔

اگر ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ طلاق دینے کی نوبت آجائے تو طلاق دینے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ بیوی کو ایسی پاکی کی حالت میں صریح الفاظ کے ساتھ ایک طلاق دی جائے جس میں اس سے ہم بستری نہ کی ہو۔ طلاق دینے کے بعد بیوی کی عدت شروع ہوجائے گی اور حاملہ ہونے کی صورت میں وضعِ حمل (بچہ کی پیدائش) اور حاملہ نہ ہونے کی صورت میں تین ماہواری گزرنے کے بعدت بیوی کی عدت مکمل ہوجائے گی اور نکاح ختم ہوجائے گا۔ عدت ختم ہونے سے پہلے زبانی یا فعلی رجوع کی گنجائش ہوگی۔

طلاق واقع کرنے کے لیے میاں بیوی کا ایک ہی ملک میں ہونا ضروری نہیں ہے، بیوی کی غیر موجودگی میں بھی طلاق دی جاسکتی ہے۔ طلاق کے الفاظ کی ادائیگی ہوتے ہی طلاق واقع ہوجائے گی۔ بہتر یہ ہے کہ تحریری طور پر طلاق دی جائے، تاکہ بوقتِ ضرورت تحریر کام آسکے۔

سنن أبي داود (2 / 255):
"عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أبغض الحلال إلى الله تعالى الطلاق»".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 230)::
"وركنه لفظ مخصوص خال عن الاستثناء (طلقة) رجعية (فقط في طهر لا وطء فيه) وتركها حتى تمضي عدتها (أحسن) بالنسبة إلى البعض الآخر".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200834

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں