بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق بائن کی تفصیل


سوال

طلاقِ بائن کی تمام صورتیں مذاہبِ اربعہ کی روشنی میں مطلوب ہیں!

جواب

فقہِ حنفی کی رو سےطلا قِ بائن  کی مختصر وضاحت مذکور ہے:

طلاقِ بائن وہ طلاق ہوتی ہے جس سے نکاح ختم ہوجاتا ہے۔یہ طلاق ایسے الفاظ سے ہوتی ہے جس سے فوری طور پررشتہ نکاح ختم کرنا سمجھا جائے۔

طلاق بائن دو طرح کی ہے:

1- طلاق بائن خفیفہ : یہ ایک یا دو طلاق کو کہتے ہیں جس میں رشتۂ نکاح ختم ہوجاتا ہے ، شوہر کو رجوع کا حق نہیں رہتا۔ ہاں! اگر وہ دونوں دوبارہ ازدواجی زندگی گزارنا چاہیں تو دورانِ عدت یا بعد ختمِ عدت بقرارِ مہرِ جدید دوبارہ عقد  کرسکتے ہیں۔

2-طلا قِ مغلظہ:جب طلاقوں کا عدد تین تک پہنچ جائے تو اسے طلاقِ مغلظہ کہتے ہٰیں ۔طلاقِ مغلظہ کو بینونتِ کبریٰ ٰبھی کہتے ہیں ۔

طلاق کے جن الفاظ میں شدت نہیں ہوتی وہ عام طور پر  رجعی طلاق کے الفاظ ہوتے ہیں اورجن کے معنی میں شدت اورسختی ہوتی ہے وہ بائن کے الفاظ ہوتے ہیں ۔اس کے علاوہ بسااوقات ایک لفظ طلاقِ رجعی کا ہوتا ہے مگر مخصوص اَحوال کی وجہ سے وہ بائن بن جاتا ہے، مثلاً غیر مدخولہ کو اگر طلاقِ رجعی  دی جائے تو وہ بائن ہوتی ہے،اسی طرح اگر بائن کے بعد رجعی دی جائے تو وہ بھی بائن ہوتی ہے وغیرہ ۔تفصیل کے لیے کتبِ فقہ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

طلاقِ بائن کے ذریعہ عورت نکاح سے خارج ہوجاتی ہے،میاں بیوی کا نکاح ختم ہوجاتاہے؛ اس لیے طلاقِ بائن کے بعد تجدیدِ نکاح سے قبل میاں بیوی کے تعلقات قائم کرنا یاساتھ رہناجائز نہیں۔طلاقِ بائن کے بعد رجوع کی صورت یہ ہے کہ شوہرگواہوں کی موجودگی میں نئے مہرکے ساتھ دوبارہ نکاح کرے ۔ دوبارہ نکاح کی صورت میں آئندہ کے لیے شوہرکوصرف دوطلاق کاحق حاصل ہوگا(جب کہ اس سے پہلے صرف ایک طلاق بائن واقع ہوئی ہو)۔آئندہ جب کبھی بھی مزیددوطلاقیں دیں تو بیوی اپنے شوہرپرحرام ہوجائے گی۔فقط واللہ اعلم

نوٹ: مذاہبِ اربعہ کی تفصیل متعلقہ کتب میں ملاحظہ کیجیے۔ نیز ہماری ویب سائٹ پر موجود کتابوں میں "الفاظِ طلاق کے اصول" مؤلفہ مفتی شعیب عالم صاحب سے استفادہ کیجیے۔ کسی خاص جزئیے سے متعلق سوال ہو تو وہ ارسال کیجیے، اس کی بابت تفصیلی جواب ارسال کردیا جائے گا۔


فتوی نمبر : 144007200138

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں